سہاروں کی تلاش میں سرگرداں قیادت!
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تحریکِ عدم اعتماد کے معاملے پر کھینچا تانی جاری ہے،ملک کی تمام سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے رابطے کر کے اپنا موقف مضبوط کرنا چاہ رہی ہیں، اپوزیشن دعویدار ہے کہ نمبر گیم پوری ہو چکی ہے ،حکومت کا جانا ٹہر گیا ہے ،جبکہ حکومت پُر اعتماد ہے کہ حزبِ اختلاف کی تحریک میں کوئی دم خم نہیں ہے ،اس کے باوجود حکومت کی جانب سے سیاسی رابطوں میں تیزی بتانے کے لیے کافی ہے کہ اپوزیشن کے اقدامات کی وجہ سے ایک ہلچل ضرور مچی ہوئی ہے،حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا میاب ہو گی کہ نہیں ،یہ آنے والا وقت ہی بتا ئے گا ،تاہم حکومت اور اپوزیشن کی محاذ آرائی میں عوام کا کوئی پر سان حال نظر نہیں آتا ہے۔
یہ امر واضح ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی محاذ آرائی میں عوام کی مشکلات کم ہو نے کی بجائے بڑھتی جارہی ہیں ،حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کی طرف سے عوام سے ہمدردی کے دعوے بہت کیے جاتے ہیں ،لیکن دونوں جانب سے عملی اقدامات کی صورت حال تمام تر دعوئوں کے برعکس ہے، حکومت کا جہاںخود کو مستحکم کرنے کیلئے کوششیں کرنا درست ہے، وہیں اپوزیشن کا بھی حکومت پر تنقید کرنا اوروزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانا جائز ہے، لیکن یہ ساری سیاسی ملاقاتیں اور سرگرمیاں اسی وقت مثبت قرار دی جاسکتی ہیں کہ جب ان کا مرکز و محور عوامی مسائل کا تداک رہے ،بصورتِ دیگر سیاسی جماعتوں کے مفادات کی جنگ ہی کہلائے گی۔
یہ حقیقت ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کو عوام کی کوئی پرواہ نہیں ہے ،اگر حکومت نے اپنے دور اقتدار میں عوام کیلئے کچھ نہیں کیا تو اپوزیشن نے بھی عوام کے مسائل کے تدارک کیلئے کوئی پیش رفت نہیں کر سکی ہے ، اپوزیشن نے حکومت گرانے اور خود کو بچانے کیلئے پہلے جلسے ،جلوس نکالے اور اب ریلیاں اور تحریک عدم اعتماد لانے میں لگی ہے ،جبکہ عوام یکے بعد دیگرے آئے روز پٹرول ،گیس ،بجلی کی بڑھتی قیمتوں کے نچے دبتے جارہے ہیں،حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی عوام کے بڑھتے مسائل سے نجات دلانے کے دعوئیدار ہیں ،مگر دونوں ہی کے پاس عومی مسائل کے تدار ک کی کوئی واضح حکمت عملی موجود نہیں ہے۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ آج کی اپوزیشن کل کی حکمران رہی ہے اور اس نے اپنے طویل دور اقتدار میں عوام کیلئے کچھ بھی نہیں کیا ہے ،اس لیے عوام نے آزمائے کو مسترد کرتے ہوئے نئی قیادت کو موقع فراہم کیا تھا ،عوام کا خیال تھا کہ نئی قیادت ان کی زندگی میں تبدیلی لانے میں کا میاب ہو جائے گی ،مگر موجودہ حکومت اپنے سا ڑھے تین سالہ دور اقتدار میں عوام کی زندگی میں تبدیلی لانا تو دور کی بات ،تھورٰ بہت رلیف دینے میں بھی ناکام رہی ہے،عوام ساڑھے تین سال سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان صرف محاذ آرائی دیکھ رہے ہیں ،اپوزیشن کی ساری کائوشیںحکومت گرانے کیلئے اور حکومت کی(باقی صفحہ 7بقیہ نمبر 2)
ساری کار گزاریاں اپوزیشن کو دبانے کیلئے کی جارہی ہیں،ان دونوں کے ایجنڈے پر عوام کہیں نظر نہیں آتے ہیں۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ حکومت اور اپوزیشن اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں ،ایک طرف اپوزیشن احتجاجی ریلی کے ساتھ اسلام آباد کی جانب گامزن ہے تو دوسری جانب حکومتی وزراء اپوزیشن کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کراچی کی جانب رواں دواں ہیں ،حکومت اور اپوزیشن کے احتجاج میں کارکنان تو موجود ہیں ،مگر عام عوام کہیں نہیں ہیں، کیو نکہ عوام کو دونوں پر ہی اعتماد نہیں رہا ہے ،عوام کے دونوں ہی آزمائے ہوئے ہیں ،اگر اپوزیشن نے عوام کو کچھ نہیں دیا تو حکومت بھی عوام کیلئے کچھ نہیں کر سکی ہے ،اس لیے ایک دوسرے کے خلاف احتجاج کا نتیجہ کو ئی اچھا نکلنے والا
نہیں،ایک کے ہاتھ میں چونچ اور ایک کے ہاتھ میں دم ضرور آسکتی ہے۔
یہ کتنی عجب بات ہے کہ عوام کے نمائندہ ہونے کے دعوئیدار مقتدر قوتوں کے سہاروں کی تلاش میں سر گرداں رہتے ہیں،سیاسی قائدین ایک طرف حکومت میں آنے اور گرانے کیلئے مقتدر قوتوں کے سہاروں کے مرہون منت رہتے ہیںتو دوسری جانب مقتدر قوتوں پر تنقید کرتے ہوئے نیوٹرل رہنے کی گارینٹی بھی مانگتے ہیں، ہر سیاسی قیاد کی نظر میں نیوٹرل رہنے کی گارنٹی اس کے اپنے سر پر دست شفقت کا رکھا جانا ہے،اپوزیشن اور حکومت دونوں ہی اپنے سر پر مقتدر قوتوں کا دست شفقت چاہتے ہیں،یہ دست شفقت ہو گا تو احتجاجی ریلی کے ساتھ تحریک عدم اعتماد بھی کا میاب ہو سکے گی ،دوسری صورت میں حکومتی جماعت نہ صرف اپنی مقررہ مدت پوری کرے گی ،بلکہ آئندہ بھی برسر اقتدار آسکتی ہے ،جبکہ اپوزیشن کو اپنی پرانی تنخواہ پر ہی کام کرناپڑے گا ۔