احتساب عدالت نے آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف کے جسمانی ریمانڈ میں 10 روز کی توسیع کر دی۔
خواجہ آصف کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس کی سماعت لاہور کی احتساب عدالت میں ہوئی۔
نیب پراسکیوٹر عاصم ممتاز نے عدالت کو بتایا کہ دوران تفتیش خواجہ آصف سے اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، خواجہ آصف دبئی سے باقاعدہ تنخواہ لیتے رہے مگر بینک اسٹیمنٹ نہیں دی۔
عاصم ممتاز نے بتایا کہ خواجہ آصف نے دعویٰ کیا کہ وہ تنخواہ لیتے رہے مگر ثبوت نہیں دے سکے، خواجہ آصف نے طارق میر نامی شخص کے ساتھ مل کر ایک کمپنی بنائی جس کا ذریعہ نہیں بتایا، طارق میر نامی شخص نے 51 کروڑ 17 لاکھ روپے کمپنی اکاؤنٹ میں جمع کروائے، یہ نہیں بتایا گیا کہ پیسے کہاں سے آئے۔
نیب پراسیکیوٹر کا مزید کہنا تھا کہ طارق میر اور ارشد جاوید خواجہ آصف کے قریبی آدمی ہیں، نیب کو تفتش کا دائرہ وسیع کرنا ہے لہذا ان کا جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔
نیب پراسیکیوٹر نے خواجہ آصف کے 15 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ آصف نے اپنے جس ملازم کے نام پر کمپنی بنا رکھی تھی اس کے اکاؤنٹ میں پیسے ٹرانسفر ہوئے۔
خواجہ آصف کے وکیل فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ یہ سب پیسے ڈکلیئرڈ ہیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا منی لانڈرنگ بھی ہوئی تھی؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ جی غیر ملکی کمپنی سے جو 13 کروڑ بھیجے گئے یہ ان کی تفصیلات نہیں دے رہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کمپنی اکاؤنٹ میں جمع کروائی گئی رقم کس نے بینک سے نکلوائی؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ بینک سے رقم طارق میر نے خود نکلوائی ہے۔
خواجہ آصف کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ مارچ 2019 میں خواجہ آصف کے خلاف انکوائری کا آغاز ہوا۔
عدالت نے فاروق ایچ نائیک سے استفسار کیا کہ اس وقت حکومت کس کی تھی؟ عدالت کو بتایا گیا کہ اس وقت پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تھی۔
فاضل جج نے کہا کہ اس وقت لانگ مارچ شروع نہیں ہوا تھا نا؟ جج کے ریمارکس پر عدالت میں عدالت میں قہقہے لگ گئے۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ لانگ مارچ تو ابھی شروع ہوا ہے، جس پر عدالت نے کہا کہ فاروق ایچ نائیک صاحب انکوئری کا آغاز کسی بھی وقت ہوسکتا ہے۔
وکیل خواجہ آصف نے کہا کہ ان کے موکل نے راولپنڈی نیب کو تمام سوالات کا باقاعدہ جواب دیا تھا، خواجہ آصف کا کیس لاہور نیب کو ٹرانسفر کیا جاتا ہے اور گرفتار کر لیا جاتا ہے، کاروبار کرنا ہر شخص کا قانونی حق ہے اور قانون اس کی اجازت دیتا ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ 13 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے تفتشی افسر چار بار خواجہ آصف سے ملےہیں، نیب کی جانب سے سیاسی کیس بنایا گیا ہے۔
انہوں نے نیب پراسیکیوٹر کی جانب سے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ عدالت جوڈیشل ریمانڈ پر خواجہ آصف کو جیل بھیجنے کا حکم دے۔
عدالت نے نیب کی جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی استدعا منظور کرتے ہوئے خواجہ آصف کو 22 جنوری تک جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کر دیا۔