کورونا وارڈ اور امید کی دستک

تحریر: فرح ذوالقرنین

کوررونا وارڈ کے یونٹ نمبر 3 میں داخل ہوتے ہی کانوں میں سورہ رحمٰن کی آیت نمبر 13 "فبای الا ء ربکما تکذبن ” تو (اے گروہ جن و انس) تم اپنے پروردگار کی کون کونسی نعمت کو جھٹلاؤ گے” کی صدا سن کر ادھر اُدھر نگاہ دوڑائی تو دیکھا کہ ایک پرائیویٹ کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور وہاں پر لگ بھگ 25 سال کی عمر کی ایک خاتون لیپ ٹاپ پر سورہ رحمٰن سن رہی تھیں اور بستر پر ایک صاحب جنکی عمر لگ بھگ 72 سال ہوگی، آنکھیں موندے لیٹے ہوئے تھے۔ ابھی میں وارڈ "سی” کی طرف جا ہی رہی تھی کہ اچانک ایک صاحب کو دوڑتے ہوئے اپنی طرف آتے دیکھا اور دوڑتے ہوئے وہ یہ کہہ رہے تھے ” دیکھئیے میں پھر کہہ رہا ہوں مریضہ کو ابھی اس کمرے میں شفٹ نہیں کرنا ورنہ ہماری ذمہ داری نہیں ہو گی۔ جب تک کمرہ مکمل طور پر صاف نہیں ہوجاتا ، مریضہ کو وہاں نہیں لےجانا” صورتحال کو سمجھنے کے لئیےمیں نے ان صاحب کو روکا اور پوچھا کیا بات ہے جناب کیا مسئلہ ہے؟

وہ صاحب کہنے لگے: "کمرہ خالی ہو گیا ہے”۔ صورتحال واضح ہو گئی۔ کورونا وارڈ کی ایک مریضہ جوکہ اعلی شخصیت کی زوجہ محترمہ تھیں انہیں جلد از جلد پرائیویٹ کمرے میں شفٹ کرنے کی لیے ہسپتال کے ڈاکٹرز اور اسٹاف کی دوڑیں لگی ہوئی تھیں لیکن ساتھ ساتھ کورونا کے لیئےطے کئے گئے اصول و ضوابط کا خیال بھی رکھنا تھا۔لہذا ہسپتال کا عملہ اعلی شخصیت کے بیٹے کو بار بار سمجھا رہا تھا کہ جب تک کمرہ مکمل طور پر جراثیم کشی کے عمل سے نہ گزر جائے وہ صبر کا دامن اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور تھوڑا سا انتظار کریں۔ یہ سب صورتحال دیکھ کر دل بے قرار کو کچھ قرار آیا کیونکہ راولپنڈی اور اسلام آباد میں موجود ہسپتالوں میں اپنے قریبی جاننے والوں کی زبانی جو کچھ سنا تھا وہ کچھ حوصلہ افزا نہ تھا۔ میں نے ان صاحب کا شکریہ ادا کیا اور وارڈ "سی” میں داخل ہوئی۔ بستر پر میری ساس لیٹی ہوئی تھیں اور انکی حالت پہلے سے بہت بہتر تھی۔ میری نند نے مجھے ضروری باتیں بتائی اور وہ گھر کیلئے روانہ ہوگئی کیونکہ مریض کے ساتھ صرف ایک فرد کو رکنے کی اجازت تھی۔ وارڈ کا جائزہ لیا تو دیکھا کہ ایک ہال نما کمرے میں مناسب فاصلے کے ساتھ 6 بستر لگائے گئے تھے۔ وارڈ میں آخری کونے پر ایک بیت الخلاء تھا جو کہ تمام مریضوں اور انکے ساتھ رہنے والے خدمت گاروں کے لئے مختص تھا۔ میں بستر کی پائنتی پر بیٹھ کر اپنی ساس سے باتیں کر رہی تھی کہ دیوٹی داکٹرز وارڈ میں داخل ہوئے۔ انتہائی پیشہ وارانہ مہارت کے ساتھ ایک ایک مریض کی خیریت دریافت کی، تسلی، ہمت دلاسہ، دلجوئی اور ہدایات دیتے ہوئے اپنا فرض ادا کیا اور چلے گئے۔ بعض اوقات تسلی بھرے الفاظ بھی امید کی دستک کا جواب ہوتے ہیں۔ ہسپتال کی ایمرجنسی سے لے کر کورونا وارڈ تک امید کی ہر دستک کا جواب دینے کی کوشش کرنے والے ڈاکٹرز، نرسسز اور تمام متعلقہ عملے کو میرا سلام!

دوپہر کا ایک بج رہا اور کھانے کا وقت ہو گیا تھا میں بھی اپنی ساس کے لئے کھانا لینے استقبالیہ کے قریب رکھی گئی میز کے قریب پہنچی تو دیکھا وہاں صرف روٹی کے پیکٹ موجود تھے لیکن سالن نہیں تھا۔میرے استفسار پر اسٹاف بوائے نے بتایا کہ کچھ مریضوں کے خدمت گار مقررہ حد سے زیادہ سالن لے کر چلے گئے ہیں جسکی وجہ سے کھانا کم پڑ گیا ھے اور معاملہ کچھ ایسا ہی تھا ؂۔ "تعلیم یافتہ” خواتین سالن کے دو دو ڈبے اٹھائے اپنے اپنے وارڈز کی جانب رواں دواں تھیں۔ جبکہ معاشرے کی نظر میں "کم تعلیم یافتہ اور معاشی اعتبار سے نچلے درجے کی خدمت گار” حیران و پریشان یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے۔ اسٹاف بوائے فون پر متعلقہ ڈیپارٹمنٹ کے لوگوں کو ساری صورتحال سے آگاہ کر رہا تھااور بالاخر وہ مزید سالن کے ڈبے منگوانے میں کامیاب ہو گیا اور میرے ساتھ دیگر 3 خدمت گاروں کو اپنے مریضوں کے لئے کھانا مل گیا۔

سہ پہر تین بجے کا وقت تھا کہ اچانک وارڈ میں موجود ایک نوجوان کو شدید کھانسی شروع ہو گئی اور اسکی حالت غیر ہونے لگی۔ نوجوان کی بیوی کمال بے نیازی سے کینو کھانے میں مصروف عمل تھی۔ مجھ سے رہا نہ گیااور میں ان خاتون کی طرف بڑھی اور کہا کہ آپکے شوہر کی طبیعت خراب ہو رہی ہے شدید کھانسی ہے۔ آپ انکی پیٹھ سہلائیں یا تھپتھپائیں تاکہ سانس بحال ہو سکے۔ خاتون بے دلی سے اٹھیں اور کہنے لگیں ” یہ میری سنتے ہی نہیں” میں نے خاتون سے کہا کہ آپکے شوہر تکلیف میں ہیں اور مریض ایسی صورتحال میں کچھ بھی کرنے یا کہنے کی حالت میں نہیں ہوتا۔ بحثیت خدمت گار یہ آپکی ذمہ داری ہے کہ آپ کی مکمل توجہ آپکے مریض یعنی آپکے شوہر کی طرف ہو۔ کچھ دیر کی محنت کے بعد اس نوجوان کی حالت سنبھل گئی۔ رشتے جھیلنے کے لئیے نہیں نبھانے کے لئیے ہوتے ہیں!

وارڈ میں ایک مسیحا اور بھی تھا یہ نوجوان اپنے والد کے ساتھ خدمت گار کے طور پر موجود تھا۔ کسی کو اضافی دستانے چاہئے ہوں، کیفے سے کھانا منگوانا ہو یا بیٹھنے کے لئے کرسی یہ نوجوان پوری لگن کے ساتھ مدد کے لئے تیار رہتا تھا۔ اس نوجوان کو دیکھ کر یہ یقین مضبوط ہوچلا تھا کہ کچھ مسیحا اللہ کا واسیلہ بن کر آپ کے ارد گرد موجود ہوتے ہیں ۔ بس انہیں دیکھے کی ضرورت ہوتی ہے۔ دعا  ہے کہ یہ وسیلے سلامت رہیں اور لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں تقسیم کرتے رہیں آمین۔

جس وقت میں یہ تحریر رقم کر رہی ہوں۔ میری ساس صحت یاب ہو کر گھر آچکی ہیں اور ڈاکٹرز کے مطابق 7 سے 8 دنوں میں ان کی صحت میں مزید بہتری کی امید ہے۔ اس تحریر کو لکھنے کا مقصد یہ ہےکہ کورونا وبا کے دوران ، صحت کا عملہ بشمول ڈاکٹرز، نرسز سے لے کر خاکروب تک جو لوگ دل و جان سے انتھک محنت کر رہے ہیں اور مریضوں کی زندگی بچانے کی کوشش کر رہے ہیں ان کی خدمات کو نہ صرف خراج تحسین پیش کرنا ہے بلکہ ان تمام خدمت گاروں کو یہ پیغام دینا ہے کہ کورونا کے مریض کی امید کی دستک کی صدا سن کر دروازہ کھولنا نہ بھولیں اور مندرجہ ذیل باتوں کی طرف ضرور توجہ دیں۔

1۔ ماسک کا استعمال یقینی بنائیں

2۔ ہاتھوں کو بار بار دھوئیں

3۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہسپتال سے گھر زندہ سلامت آنے والا مریض” نمائش کے لئے” نہیں ہے۔ ڈاکٹرز کی ہدایات کے مطابق مریض کو مکمل صحت یابی تک علیحدہ کمرے تک محدود رکھیں اور تمام اصول و ضوابط کا پورا خیال رکھنے کی کوشش کریں۔

4۔ معاشرے میں موجود رسم و رواج کو بدلنا بہت مشکل ہوتا ہےلیکن جب آپ یہ طے کر لیتے ہیں کہ خود کو محفوظ رکھتے ہوئے دوسروں کو بھی محفوظ رکھنا ہےتو یہ رسم و رواج بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔  ہمت کیجیے، ہسپتال سے گھر آنے والے مریض سے ملنے کے خواہش مند رشتے داروں اور دوست و احباب کو بتایئے کہ سماجی و جسمانی فاصلہ کورونا سے بچنے اور صحت یابی کی منزل کی طرف اٹھنے والا ایک اہم قدم ہے

۔5 پاکستان میں صحت کا نظام اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ ہسپتالوں میں مریضوں کی تعداد بڑھ جائے۔ حکومت پاکستان کہہ چکی ہے کہ وسائل کی بہت کمی ہے۔ اس لئے اب یہ ہم سب کی زمہ داری ہے کہ ہم اپنی حفاظت خود کریں۔ اور دوسروں کی امید کی دستک کا راستہ نہ روکیں بلکہ اس کی صدا کو سن کر خلوص دل سے در وا کیجئیے۔

اللہ تعالٰی کورونا وبا کے دوران انتقال کر جانے والے تمام مرحومین اور مرحومات کے درجات بلند فرمائےاور اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ تمام مریضوں کو صحت کاملہ اور شفاء کاملہ عطا فرمائے۔ آمین