پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن (پناہ)،نیشنل کواڈینٹر نیوٹریشن منسٹری آف ہیلتھ اورکنسلٹنٹ فوڈ پالیسی پروگرام (گاہی ی)GHAIکے اشتراک سے سینئر صحافیوں پرمشتمل” شوگرسوئیٹنڈ بیوریجز (ایس ایس بی) کے نقصانات اورٹیکس کے نفاذکی حمایت "کے موضوع پر اہم ورکشاپ میں شریک شرکاء کاگروپ فوٹو

اسلام آباد (خبرنگار)پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن (پناہ)کے زیرانتظام سینئر صحافیوں پرمشتمل شوگرسوئیٹنڈ بیوریجز (ایس ایس بی) کے نقصانات اورٹیکس کے نفاذکے موضوع پر ورکشاپ کاانعقاد 2015 میں پاکستان میں 387بلین روپے کی لاگت سے4426ملین لٹر کے کاربونیٹد شوگری ڈرنکس (ایس ایس بی) پیے گئے۔ انڈسٹری 70 ار ب ٹیکس دینے کاکہہ کرفقط 38ارب ٹیکس اداکرکے عوام اورحکومت کوگمراہ کرتی ہے، پاکستان میں روزانہ غیرمواصلاتی امراض (این سی ڈیز)سے2200اموات واقع ہوتی ہیں, کم ازکم ” شوگرسوئیٹنڈ بیوریجز (ایس ایس بی)پر20فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی نافذکی جائے،تاکہ بیماریوں سے نجات کے ساتھ ریونیومیں اضافہ ہو، پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن (پناہ)، منسٹری آف نیشنل ہیلتھ سروسز اور گلوبل ہیلتھ ایڈووکیسی انکوبیٹر کے اشتراک سے سینئر صحافیوں پرمشتمل” شوگرسوئیٹنڈ بیوریجز (ایس ایس بی) کے نقصانات اورٹیکس کے نفاذکوضروری قرار دینے "کے موضوع پر اہم ورکشاپ کاانعقادکیاگیا،میزبانی کے فرائض پناہ سے ثناء اللہ گھمن،منسٹری آف ہیلتھ سے خواجہ مسعود احمداورگاہی سے منورحسین نے سرانجام دیے،ورکشاپ میں سینئر صحافیوں ایڈیٹرز،بیوروچیفس،میگزین ایڈیٹرز دنیانیوز گروپ سے محمدعادل،نیوٹی وی سے جاویدبلوچ،پی ٹی وی سے نزید تبسیم،تزئین اختر،زاہدفاروق ملک،آن لائن سے اقبال ملک،اے ون سے شاہد ملک،نوائے وقت سے عارف کالراؤ،اساس سے ناصرمغل،اوصاف سے وقارکاظمی،دی نیشن سے اسراراحمد،بزنس ریکارڈر سے طاہرامین،حق نیوز سے غفران چشتی،پیٹریویٹ سے فہد،اے پی پی سے محمدیوسف،جیوسے آصف بشیر،بول سے چوہدری وسیم،24نیوز سے ملک عثمان،ہم نیوز سے ظریف احمد،92نیوز سے اظہرجتوئی،فیصل منصور،نیشنل پریس کلب کی جوائنٹ سیکریٹری شکیلہ جلیل،کشمیرایکسپریس سے شمیم اختر،پنجاب ٹی وی سے نرگس جنجوعہ،جی این اے نیوزچینل سے افشاں قریشی،جناح سے نبیلہ حفیظ،روزٹی وی سے فہد،اے ون سے بشیرملک،دی مارننگ نیوز سے عظمت خان،کشمیر ٹائمز سے نعمان،کیپیٹل پوسٹ سے شہزادراجپوت ودیگرنے شرکت کی۔ورکشاپ آغاز تلاوت قرآن پاک سے کیاگیا پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن (پناہ) کے جنرل سیکریٹری وڈائریکٹرآپریشن ثناء اللہ گھمن نے مہمانان گرامی کاشکریہ اداکیااور کہاکہ پناہ گزشتہ 37سال سے دل سمیت مختلف بیماریوں سے متعلق آگہی دیتی ہے اوربیماریوں کی وجہ بننے والے عوامل کوسامنے لاتی ہے، لاء اینڈ پالیسی میکر کے ساتھ مل کرمشاورت کرتے ہیں،عوام کی آواز میں طاقت ہے،تین سال قبل حکومت نے سگریٹ کے دام آدھے کردیے، تو میڈیا کے توسط سے آوازبلند کی گئی جس کی بدولت وفاقی محتسب نے ازخود رابطہ کیا،پناہ کا موقف ہے کہ جب شوگری ڈرنکس اور سگریٹ مہنگے ہونگے تو بچوں کی پہنچ سے دوررہیں گے،بیماریوں میں کمی واقع ہوگی اورحکومت کے ریونیومیں واضح اضافہ ہوگا،وفاقی محتسب میں معاملہ اٹھانے کے باوجود مسئلہ جوں کاتوں رہا،لیکن ہم نے ہمت نہیں ہاری اورآپ سب کی طرف سے ملنے والی حوصلہ افزائی کے باعث امریکہ اورجنیوا کے میگزین میں بھی وفاقی محتسب کا تمباکواورشوگری ڈرنکس پرٹیکس کے نفاذ کی حمایت پرخبرشائع کی گئی،شوگری ڈرنکس کی ایک بوتل میں 10سے 12 چینی کے چمچ شامل ہوتے ہیں جوبنیادی بیماریوں کی جڑہیں،ہماری جدوجہداڑھائی سال سے جاری ہے،دوسری جانب بیورج انڈسری فنانس منسٹری سے جا کرملتی ہے اورکہتی ہے کہ ہم 70ار ب ٹیکس دیتے ہیں جب کہ ایف بی آرکے ریکارڈ کے مطابق20- 2019میں بیورج انڈسٹری کی جانب سے فقط 38اربسے بھی کم کا جی ایس ٹی اور ایف ای ڈی اداکیاگیا ،ایک بات واضح ہوگئی کہ انڈسٹری حقائق سے گمراہ کررہی ہے، تمباکو کی صنعت نے 2019میں کل 120 بلین روپے ٹیکس اداکیا،جو تمباکو نوشی کی کل لاگت کا صرف 20 فیصد تھا، پاکستان کے قومی خزانے کو تمباکو کی کھپت سے معاشی،اقتصادی اورصحت کے لحاظ سے ہرسا ل 615 ارب روپے کے بوجھ کاسامناہے، اسی طرح روزانہ ایک چھوٹی شوگری ڈرنکس پینے سے 18فیصد کینسر،42فیصد دل کے امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے،حکومت اس پرفوری ایکشن لے۔ نیشنل کواڈینٹر نیوٹریشن منسٹری آف ہیلتھ ڈاکٹرخواجہ مسعود احمد نے کہاکہ 58 فیصد اموات این سی ڈیز کی وجہ سے ہوتی ہیں،چالیس فیصد آبادی موٹاپاکاشکارہے،2011میں 28 فیصد خواتین اضافی وزن کاشکارتھیں یہ 2018 میں بڑھ کر 38 فیصد ہو گئی،فاٹااورخیبرپختون خواہ میں موٹاپا کی شرح زیادہ ہے ،بچوں میں موٹاپا کی شرح بھی بہت زیادہ ہے،2011میں پانچ فیصد،2018میں 5۔9فیصد بچے موٹاپا کاشکارتھے،نوجوان اوربچوں میں سب سے زیادہ ایس ایس بی کااستعمال ہے،نوجوان بچیوں میں ہرپانچویں بچی 10 سال سے 19 سال تک کی عمر کے موٹاپاکاشکارہیں،دس سال قبل ذیابطیس نہ ہونے کے برابرتھی،اب پاکستان 19ملین افراد کے ساتھ ذیابطیس میں 4نمبرپرآچکاہے،آج کل 8لاکھ اموات غیرمواصلاتی اموات (این سی ڈیز) کی وجہ سے ہورہی ہیں،ہم میڈیاکے نہایت مشکورہیں کہ وہ عوامی مسائل کونمایاں کرتے ہیں،آج کل 8لاکھ اموات غیرمواصلاتی اموات (این سی ڈیز) کی وجہ سے ہورہی ہیں،جن پرقابوپاناوقت کی اہم ضرورت ہے، کنسلٹنٹ فوڈ پالیسی پروگرام گلوبل ہیلتھ ایڈووکیسی انکوبیٹر منورحسین نے کہاکہ پائیڈ کی تحقیق کے مطابق ۔2015میں پاکستان نےموٹاپے پر ہیلتھ بجٹ کا 16فیصد خرچ کیا تھا ،شوگری ڈرنکس (ایس ایس بی)پچاس فیصد آبادی ہفتے میں ایک بارضرور پیتی ہے جب کہ 17فیصد روزانہ پیتے ہیں،لہذا مضرصحت اشیاء پرٹیکس نافذکرکے ہم لوگوں کوبیماریوں سے بچاسکتے ہیں، عوامی سروے میں 88 فیصد آبادی لاعلم تھے کہ ایک شوگری ڈرنکس میں وہ روزانہ کی بنیادی پرکتنی چینی پی رہے ہیں اوربیماریوں کودعوت دے رہے ہیں،جب کہ عالمی ادارہ صحت ڈبلیوایچ اوکے مطابق10فیصد سے زیادہ کیلوریز چینی سے نہیں لے سکتے ،ٹیکس کے نفاذ سے ریونیومیں اضافہ ہوگاجس کے توسط سے صحت مند غذا عوام تک پہنچ سکے گی،عالمی تحقیق ہمیں بتاتی ہے کہ انڈیامیں 20فیصد ٹیکس سے 2سے 3فیصد موٹاپامیں کمی واقع ہوئی پچاس سے زائد ممالک نے شوگری ڈرنکس پرٹیکس کے نفاذ کیا ہوا ہے،جب کہ پاکستان میں 13فیصد اکسائز ڈیوٹی کاربویٹڈ ڈرنکس پر،5فیصد ایکسائز ڈیوٹی فقط جوسزپرہے اور اس کے علاوہ 17بفیصد سیلز ٹیکس ہے،شوگری ڈرنکس پرکم ازکم فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 20فیصد نافذ کرنا چاہیے۔ پاکستان میں ٹیکس کی شرح دیگر ممالک کی نسبت بہت کم ہے۔ انڈیا میں 40 فیصد ٹیکس شوگری ڈرنکس پر ہے۔ سعودی عرب اور یو اے ای میں 50 فیصد ہے۔ پاکستان میں سالانہ 428ارب روپے فقط موٹاپا سے متعلقہ بیماریوں پرخرچ آتاہے،کورونا کی وجہ سے فنڈز کی کمی واقع ہوئی ہے،دنیانے ایساہی کیاکہ انھوں نے مضر صحت غذا پرٹیکس نافذ کیااورحاصل کردہ ریونیو سے ویکسین خریدنے میں مددملی،پاکستان میں بھی ایساہی کرناچاہیے،مزید تاخیر نہیں برتنی چاہیے،ایف ای ڈی ،انرجی ڈرنکس، جوسزاورباقی مصنوعی مشروبات پر20فیصد نافذ ہوناچاہیے،پاکستان ہیلتھ ریسریچ کونسل اورپناہ کی مشترکہ کاوش سے ایک قومی سروے کرواویاگیا،78فیصد پاکستانی افرادنے ایس ایس بی پرٹیکس کی حمایت کی،80فیصد نے ٹیکس کے نفاذ سے حاصل کردہ ریونیوکوصحت کے منصوبہ جات پرصرف کرنے کی حمایت کی،ہمیں ہمیشہ ہیلتھ سے متعلقہ مسائل کے باعث عموما چیلنجز کاسامنارہتاہے،ہم سب کومل کرصحت مندغذا کی بات کرناہوگی،صحافی مملکت کاچوتھاستون ہیں،ان کی جانب سے بلند کی جانے والی آواز ہرحلقہ کواثرانداز کرتی ہے،انڈسٹری کے پراپیکنڈہ کوسامنے لایاجائے اورقوم کی صحت کوترجیح دی جائے۔ ورکشاپ کے اختتام پرسوالات وجوابات کے سلسلہ کاآغاز ہوا،جس دوران صحافیوں کی بڑی تعداد نے شوگری ڈرنکس (ایس ایس بی) پرٹیکس نافذکرنے کی حمایت کی اورپناہ سمیت نیشنل کواڈینٹر نیوٹریشن منسٹری آف ہیلتھ اورکنسلٹنٹ فوڈ پالیسی پروگرام GHAIکی کاوشوں کوبے حد سراہا،جس کے بعد صحافیوں اورمختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کے ہمراہ ایک گروپ فوٹولیاگیا۔