درختوں کی قربت، بچوں کی دماغی نشوونما کے لیے مفید قرار
لندن: بچوں کو درختوں کے قریب جانے دیجئے کیونکہ وہاں وقت گزارکران کی دماغی نشوونما میں اضافہ ہوتا ہے۔ جس طرح درختوں کی شاخیں بڑھتی ہیں عین اسی طرح بچوں کے دماغ میں شاخ درشاخ عصبی خلیات (نیورون) بھی تشکیل پاتے ہیں۔
لندن میں کئے گئے مطالعے میں 9 سے 15 برس کے 3568 بچوں کا جائزہ لیا گیا۔ ان میں سے جن بچوں نے درختوں میں وقت گزارا تھا ان میں اکتسابی صلاحیتیں بہتر ہوئیں اور دماغی صحت بھی اچھی تھی۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ سبزہ بھرے میدان، دریا اور جھیلوں جیسے فطری مقامات سے دماغ پر ویسے مثبت اثرات مرتب نہیں ہوئے۔
اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ درختوں پر گزارا گیا وقت بلوغت کی عمر تک پہنچنے والے بچوں کے دماغ کے لیے بہت مفید ہوتا ہے۔ لیکن یہ درختوں اور انسانی دماغ کے درمیان دنیا کی پہلی تحقیق نہیں۔
اس سے قبل امریکہ اور ڈنمارک میں بھی ایسے کئی سروے ہوئے ہیں۔ ان سے ظاہر ہوا ہے کہ درختوں کی موجودگی دماغ کو فعلیاتی اور نفسیاتی طور پر تندرست رکھتی ہے اور عمر بڑھنے پر بھی دماغ تروتازہ رہتا ہے۔ لیکن اب تک یہ معمہ ہی ہے کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ بعض افراد کا خیال ہے کہ شجربھرا قدرتی ماحول انسانی دماغ کی تشکیل میں مدد دیتا ہے اور بالخصوص نوعمر بچوں کے لیے تو بہت ہی مفید ثابت ہوتا ہے۔ ایک تحقیق بتاتی ہے کہ درختوں کی پیچیدہ اشکال بھی دماغ پر اثرانداز ہوتی ہے۔
کچھ تحقیق اس جانب اشارہ کرتی ہیں کہ سبزہ اور درخت دماغی افعال پر اثرانداز ہوتے ہیں جن میں دماغ کا سفید اور بھورا مادہ اور ایمگڈالا کی بڑھوتری شامل ہے۔ لیکن تازہ برطانوی تحقیق درختوں کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے ناکہ محض گھاس پھوس کی جانب اشارہ کرتی ہے۔
2019 میں شائع شدہ ایک تحقیق میں کہا گیا تھا کہ سبزے میں پرورش پانے والے بچے اپنے ہم منصبوں کے مقابلے میں دماغی ٹیسٹ بہتر طور پر انجام دے سکتے ہیں۔ یہ تحقیق بتاتی ہے کہ اگر آپ کے پڑوس میں بھی درخت اور سبزہ ہو تو اس کے بھی مفید اثرات مرتب ہوتے ہیں۔