
لاہور: صوبائی اسمبلی (مراعات) ترمیمی بل 2021 جس میں ایوان، کسی کمیٹی یا رکن کے استحقاق کی خلاف ورزی پر بیوروکریٹ کی سزا تجویز کی گئی ہے، پر تنازع بڑھ گیا اور صوبائی و وفاقی حکومتیں سول بیوروکریسی کے دباؤ کے آگے جھک گئیں۔
دباؤ کے آگے اور پنجاب و وفاقی حکومتوں کی سفارش پر گورنر پنجاب نے صوبائی اسمبلی (مراعات) بل مسترد کر کے اسپیکر صوبائی اسمبلی کو واپس بھجوادیا۔
29 جون کو پنجاب اسمبلی سے منظور ہونے والے بل کی اصل صورت میں ایوان، اس کی کمیٹی یا رکن کے استحقاق کی خلاف ورزی پر صحافی کے لیے بھی سزا تجویز کی گئی تھی تاہم صحافتی تنظیموں کے احتجاج کے بعد یہ تجویز واپس لے لی گئی تھی۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ وفاقی اور صوبائی حکومت کو احساس ہوا کہ ایسا کوئی بھی قانون عہدیداروں کو دیوار سے لگادے گا اور وہ کام نہیں کریں گے کیوں کہ پی ٹی آئی حکومت اب تک بیوروکریٹس کا اعتماد حاصل نہیں کر پائی۔
ان کا کہنا تھا کہ بیوروکریٹس اس احتیاط کی وجہ سے پہلے ہی سست روی سے کام کررہے ہیں کہ انہیں نیب، ایف آئی اے یا اینٹی کرپشن سے نوٹس نہ مل جائے۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی ہدایات کے بعد گورنر نے مذکورہ بل واپس اسپیکر پنجاب اسمبلی کو بھیجتے ہوئے متعدد ہدایات بھی دیں۔
گورنر نے کہا کہ پنجاب استحقاق ایکٹ کی دفعہ 11 سی میں ‘میڈیا پرسنز کے سوا’ کے الفاظ کے ساتھ ترمیم اس وقت تک نہیں کی جاسکتی جب تک کہ ایکٹ کے ساتھ شامل شیڈول میں بھی اشاعت اور رپورٹنگ سے متعلق کاموں اور غلطیوں کے حوالے سے ترمیم نہ کی جائے۔
گورنر پنجاب نے یہ بھی کہا کہ مذکورہ بل کا آئین کی دفعات 8، 10، 10-اے، اور 25 کے تحت جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آرٹیکل 66 (2) کے تحت استحقاق ایکٹ 1972 کی "پیش کش” کو تبدیل کردیا گیا ہے جبکہ آرٹیکل 66 (2) کی روح 1973 کے آئین کے تحت ایک نیا قانون تشکیل دینے کی محسوس ہوتی ہے۔
گورنر پنجاب نے کہا کہ 1972 کے عبوری آئین کے تحت کسی قانون میں ترمیم کے بجائے ایک نیا قانون درکار ہے جو نتیجتاً منسوخ ہوجائے گی۔
دوسری جانب اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی نے پروڈکشن آرڈرز جاری ہونے کے باوجود پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی نذہر چوہان کو پیش نہ کرنے پر سول بیوروکریسی پر برہمی کا اظہار کیا۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ اسپیکر نے بیوروکریٹس کو خبردار کیا کہ ان سے اسمبلی کی ہدایات پر عملدرآمد کروایا جائے گا۔