ججز کی سیکیورٹی سے متعلق حکومتی مؤقف پر ردعمل میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت، عدلیہ کی سیکیورٹی ضروریات کا جائزہ لے اور اس کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اہلکار تعینات کرے۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ ‘ضرورت سے زیادہ پروٹوکول اور سیکیورٹی ذمہ داریوں کے باعث اخراجات میں اضافہ ہوا ہے’۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ کابینہ کے اراکین کی سیکیورٹی پر اخراجات کم کیے گئے ہیں، اس رقم کا ایک بڑا حصہ ججز کی سیکیورٹی پر خرچ کیا جارہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ ان صوبوں اور خطوں میں ایک ‘تھریٹ کمیٹی’ تشکیل دی جائے جہاں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) زیر اقتدار ہے تاکہ اہم شخصیات کے سیکیورٹی پروٹوکولز کے اضافی اخراجات میں کمی کی جاسکے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار کی جانب سے سیکریٹری داخلہ اور اسلام آباد کے چیف کمشنر کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ متعلقہ حکام نے انہیں ہدایت دی ہے کہ وہ یہ واضح کریں کہ ہائی کورٹ اور ضلعی عدالتوں میں مناسب سیکیورٹی انتظامات کو یقینی بنانا خصوصی طور پر ریاست کی ذمہ داری ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ اسی طرح قانونی چارہ جوئی کرنے والوں، معزز چیف جسٹس اور معزز ججز کو سیکیورٹی خطرات کا جائزہ لینا صرف متعلقہ حکام کی اہم ذمہ داری ہے۔
خط میں 2013 میں اسلام آباد کی ماتحت عدالت پر ہونے والے دہشت گرد حملے کا حوالہ دیتے ہوئے یاد دہانی کروائی گئی ہے کہ ‘اس حملے کے نتیجے میں عدالتی افسر سمیت متعدد معصوم جانیں ضائع ہوئیں’۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بلاک میں ہونے والے حملے کا حوالہ دیتے ہوئے خط میں کہا گیا کہ 8 فروری 2021 کو پیش آنے والے واقعے اور انتظامیہ کی جانب سے سیکیورٹی اقدامات یقینی بنانے میں ناکامی کے بعد بہت سے خدشات نے جنم لیا ہے۔
تاہم ہائی کورٹ کی پالیسی کے مطابق سیکیورٹی معاملات میں کبھی کوئی مداخلت کی گئی نہ ہی ضرورت سے زیادہ سیکیورٹی کی درخواست کی گئی۔
خط کے مطابق ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی خواہش ہے کہ متعلقہ حکام سیکیورٹی خدشات کا جائزہ لیں جس کے بعد وہ ہائی کورٹ، ضلعی عدالتوں، قانونی چارہ جوئی کرنے والوں، معزز چیف جسٹس اور ججز کی اضافی سیکیورٹی واپس لینے کے لیے آزاد ہوں گے۔
رجسٹرار نے سیکریٹری داخلہ اور چیف کمشنر کو کہا ہے کہ ‘اگر سیکیورٹی کے معاملات میں ہائی کورٹ یا ضلعی عدالتوں کے کسی عہدیدار کی جانب سے کوئی مداخلت کی گئی ہے تو رپورٹ کریں’۔