
” سچ کیاہے؟”
کالم نگار:جنرل سیکریٹر ی پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن (پناہ) ثناء اللہ گھمن
30 جولائی2021″صحت” زندگی ہے،زندگی ہے توخواب ہیں اورپھرانھیں پوراکرنے کی امیدیں انسان کوبرسرپیکاررکھتی ہیں،صحت مندفرد،خاندان اورمعاشرہ ترقی کی راہ میں سنگ میل ثابت ہوتے ہیں،لیکن اکثراوقات لاعلمی،صحت سے جڑی حفاظتی تدابیرسے غفلت ہمیں پیچیدہ امراض کی طرف دھکیل دیتے ہیں، خودکوصحت مندرکھنے کے لئے زندگی کے روزمرہ کے معاملات کواس اندازمیں ترتیب دیناچاہیے کہ آپ کی قوت مدافعت میں اضافہ ہو، بیماریوں سے محفوظ،اورصحت مندزندگی کی "پناہ”میں رہیں، اوریہ تبھی ممکن ہے جب قدرتی اورسادہ غذاؤں کے استعمال کو اپنامعمول بنایاجائے،اورصحت مندرہنے کے لئے بیماریوں کی وجہ بننے والے عوامل کواپنی زندگی سے ترک کیاجائے۔
اس وقت ہمارے ملک میں دل،کینسر،فالج،ذیابیطس،موٹاپا،جگر،گردے ودیگر پیچیدہ امراض عام ہوچکے ہیں،جن کاشکار فقط عمر رسیدہ افراد ہی نہیں بلکہ نوجوان اوربچے بھی ہیں، عوام کوان مہلک امراض سے بچانے کے لیئے گزشتہ 37سال سے آگہی کابیڑہ پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن (پناہ) نے اٹھارکھاہے۔
عوام کوجاں لیوا امراض سے محفوظ رکھنے کے لئے فلاحی اداروں کی کوشش ہی فقط مقصد کے حصول کے لئے کافی نہیں بلکہ حکومت اورقانون نافذ کرنے والے اداروں کاتعاون بھی درکار ہے،دورحاضر میں پاکستان سمیت دنیابھرکومہلک امراض کاسامناہے،جن کی روک تھام کے لئے بروقت اقدامات اٹھاناوقت کی اہم ضرورت بن چکاہے،بین الاقوامی ادارہ صحت ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق 2020 تک این سی ڈی سے دنیابھرمیں بیماریوں کے بوجھ میں 80فیصد تک اضافہ قابل تشویش ہے، ترقی پذیر ممالک میں ہر10 میں سے7 اموات این سی ڈیز کی وجہ سے ہوتی ہیں، جس میں دل کی بیماریاں سرفہرست ہیں،اگلی دہائی میں عالمی سطح پراین سی ڈیزکابوجھ 17 فیصد اضافہ کے ساتھ مزید بڑھے گا،ایشیا میں ہونے والی تقریبا نصف اموات این سی ڈیز سے منسوب ہیں، جو عالمی بیماریوں کے بوجھ کا 47فیصد ہیں، ان پرقابو پانے کے لئے موثر حکمت عملی اختیارکرنے کی ضرورت ہے جو حکومتی تعاون وامداد کے بناممکن نہیں۔
قابل افسوس امرتویہ ہے کہ13اپریل 2021میں عالمی ادارہ صحت کی تازہ ترین معلومات کے مطابق غیرمواصلاتی امراض (این سی ڈیز) سے ہر سال 41 ملین افراد ہلاک ہوتے ہیں جو عالمی سطح پر ہونے والی تمام اموات کے 71فیصد کے برابر ہیں،ہر سال این سی ڈیز سے 30 سے 69 سال کی عمر کے درمیان کے 15 ملین سے زائدافرادزندگی کی بازی ہار جاتے ہیں، 85فیصد ”قبل از وقت” اموات کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں رونماہوتی ہیں،یہ بات قابل توجہ ہے کہ این سی ڈیزسے زیادہ تر اموات دل کے امراض میں مبتلا افراد کی ہوتی ہیں، جن کی سالانہ تعداد 17.9 ملین ہے، اس کے بعد کینسر (9.3 ملین)، سانس کی بیماریوں (4.1 ملین)، اور ذیابیطس (1.5 ملین) ہیں۔
حکومت پنجاب کے "غیرمواصلاتی امراض (این سی ڈیز) کی روک تھا م کے پروگرام "نے این سی ڈیز کو اب تک دنیا میں موت کی سب سے بڑی وجہ قرار دیاہے، جو بنیادی طور پرسالانہ63فیصد اموات میں سےCardiovascular Diseases (CVDs) (48فیصد) دل کے امراض، (21فیصد)کینسر، Chronic Respiratory Diseases (CRDs)دائمی سانس کی بیماری (12فیصد) اور ذیابیطس (3.5فیصد)جیسے امراض شامل ہیں،این سی ڈیز کے ہاتھوں 80فیصداموات کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں ہوتی ہیں،جب کہ وطن عزیز پاکستان میں کل اموات میں سے 50 فی صداموات این سی ڈیز کی وجہ سے رونماہوتی ہیں،قابل فکر بات یہ ہے کہ ہمارانووجوان طبقہ اس مرض کاشکارہورہاہے،جس کے نتیجے میں معاشی مسائل کے ساتھ ساتھ بے پناہ معاشرتی مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔
موٹاپادل سمیت متعدد امراض کی جڑ ہے،پاکستان سمیت دنیابھر کواس کاسامناہے، 20 سال سے زیادہ عمر کے لگ بھگ 40 سے 50 ملین افراد موٹاپااورر زیادہ وزن کے شکارہیں،ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا اندازہ ہے کہ 2045 تک، پاکستان موٹاپاکاشکار بچوں والے ٹاپ 10 ممالک میں شامل ہوجائے گا، موٹاپااپنے ساتھ متعدد امراض لے کرآتاہے،جس کی ایک بڑی وجہ میٹھے مشروبات،چینی اورچکنائی کاکثرت سے استعمال ہے۔
انسانی جسم میں دل بنیادی اعضاء میں سے اہم ہے،لہذا دل کومضبوط رکھناضروری ہے،20مئی 2021کو انگریزی جریدہ THE NEWSمیں شائع ہونے والی خبرنے چونکادیاکہ ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن(ڈبلیو ایچ او)کے مطابق پاکستان میں ہرگھنٹہ کے بعد46افراد دل کادورہ پڑنے کی وجہ سے زندگی کی بازی ہارجاتے ہیں،موٹاپابھی دل کے امراض کی بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے ۔
قابل فکربات یہ ہے کہ اگر این سی ڈیزپرقابوپانے کے لئے ہنگامی اقدامات نہ اٹھائے گئے تواس سے معاشی بوجھ میں مزید اضافہ ہوگا،پاکستان سمیت ترقی پزیرممالک یہ نقصان اٹھانے کے ہرگزمتحمل نہیں،7مارچ2017کوinstitute for global health sciencesپرشائع ہونے والی رپورٹ میں اقوام متحدہ نے بتایا کہ اگر این سی ڈیز پرقابوپانے میں ناکامی کاسامنارہااور حالات بدستور برقراررہے تو2030 تک عالمی معیشت کو 47 ٹریلین ڈالرروپے تک کے مجموعی نقصان کاسامناکرناپڑسکتاہے،مصدقہ تحقیقات کے مطابق ان بیماریوں کی وجہ بننے والے عوامل کی روک تھام کرکے ان خطرناک نتائج سے بچاجاسکتاہے۔
حکومت پاکستان ایک اچھاقدم اٹھاتے ہوئے ان بیماریوں کی وجوہات بننے والے دوبنیادی عوامل تمباکااورشوگری ڈرنکس پر 2019 میں ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا جسے وفاقی کابینہ کی جانب سے منظورکیاگیا،لیکن دوسال کاطویل عرصہ بیت جانے کے باوجود اس پرتاحال عمل درآمد نہ ہوسکا،اس سے بیماریوں کی روک تھام کے ساتھ ساتھ حکومت کے ریونیومیں اربوں روپے کااضافہ بھی ممکن تھا
جیسے ہرگھر کا سربراہ اپنے گھروالوں کی حفاظت کواپنی ترجیحات میں اول رکھتاہے،ویسے ہی ملک کاسربراہ ہونے کے ناطے قابل احترام وزیراعظم کوچاہیے کہ این سی ڈیز کے سیلاب سے بچنے کے لئے اس کی وجہ بننے والے عوامل سے متعلق آگہی دینے کے ساتھ ساتھ ان کی روک تھام کے لئے عملی اقدامات اٹھائے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیوایچ او) سمیت تمام سنجیدہ حکومتیں اس ایک نقطہ نظرپرمتفق ہیں کہ اگرکسی چیز کی کھپت کوکم کرناہو،تو ٹیکس کانفاذ اس کاموثر ذریعہ ہے،
ہم سب کومل کرصحت سے جڑے متعدد مسائل پربروقت قابوپاناہے،تاکہ ہم صحت مندمعاشرہ کی” پناہ” میں آسکیں۔جس میں بنیادی کردارحکومت کاہے۔