پونچھ ڈیلٹا ویرینٹ کی زد میں۔ قبرستان بھرنے کا انتظار ہے؟۔
سچ تو یہ ہے،
بشیر سدوزئی ۔
ڈیلٹا ویرینٹ وائرس کرونا وائرس کی خطرے ناک بھارتی قسم ہے۔ اس کی ہولناکیوں اور تباہ کاریوں نے پچھلی سہ ماہی کے دوران بھارت میں گھر خالی ، شمشان گھاٹ اور قبرستان بھر دئے تھے۔ ہندوں دھرم کے مقدس گنگا جمنا کے کنارے پیلے کپڑوں میں لپٹی لائشوں کو دنیا بھر کے میڈیا نے دیکھایا تو لوگ سکتے میں آ گئے۔ کئی ماہ تک بھارت پر خوف کے بادل چھائے رہے ۔ یہ ڈیلٹا برطانوی ویرینٹ سے بھی زیادہ خطرناک اور 60 فیصد تیزی سے پھیلتا ہے جو انسان کو تین سے سات یوم کے اندر دنیا سے لے جاتا ہے ۔ پاکستان میں داخل ہوئے چند دن میں ہی نہ صرف گنجان شہروں بلکہ دور دراز علاقوں اور سیاحتی مقامات میں بھی خوف ناک حد تک پھیل چکا ۔ غیر متوقع طور پر آزاد کشمیر کا پونچھ ڈویژن ڈیلٹا ویرینٹ کی زد میں ہے جہاں چند دنوں میں مثبت نتائج 53 فیصد سے زائد ہو گئے ۔ سدھنوتی میں مثبت کیس صرف چار یوم کے دوران 65 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں ، جو غیر تسلی بخش صورت حال ہے۔ابھی بھی لوگ ویکسینیشین اور احتیاطی تدابیر کی طرف توجہ نہیں دے رہے۔ لگتا ہے بھارت کی طرح گھر خالی قبرستان بھرنے کا انتظار کر رہے ہیں ۔ اس سے بھی زیادہ خطرناک صورت یہ ہے کہ پونچھ میں ڈیلٹا کے پھیلنے کی رفتار بہت تیز ہے۔ 29 اگست سے یکم جولائی تک کے نتائج ایسے ہیں جیسے کرونا کو پر لگ گئے ہوں ۔ پونچھ راولاکوٹ ضلع میں 41 سے بڑھ کر 49 فیصد، باغ میں 27 سے45 فیصد، حویلی 19 سے 24 فیصد اور سدھنوتی میں سب سے زیادہ 36 سے بڑھ کر 65 فیصد مثبت کیس سامنے آئے، جب کہ آزاد کشمیر کے دیگر علاقوں میں کوٹلی میں سب سے زیادہ 18 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔ کمیشنر پونچھ مسعودالرحمان کو بڑھتی ہوئی وباء پر تشوش ہے۔ کہتے ہیں اگر عوام نے تعاون نہ کیا تو صورت حال قابو سے باہر ہو سکتی ہے ۔ ویکسین لگوانے میں تاخیر اور احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنے سے اضافہ ہوا تو بہت نقصان ہو گا جس کے نتائج اچھے نہ ہوں گے۔ اس علاقے میں تعلیمی تناسب بہت زیادہ ہے لہذا ہمارا رویہ بھی باشعور اور قائدانہ ہونا چاہئے تاکہ دیگر علاقوں کے عوام ہماری مثال دیں۔ راقم کے ساتھ بات چیت میں ڈویژنل کمیشنر نے کہا کہ حکومت اور انتظامیہ پوری کوشش کر رہی ہے کہ صورت حال کنٹرول میں رہے لیکن اس وائرس کی روک تھام احتیاطی تدابیر کا اختیار، ایس او پی پر عمل کرنا اور ویکسین لگوانے کے عمل کو تیز کرنے سے ہی ممکن ہو سکتی ہے۔ اس سارے عمل میں عوام کا تعاون چاہئے۔ عوام کے تعاون اور شمہولت کے بغیر کوئی بھی اتھارٹی اس پر قابو نہیں پا سکتی ۔ انہوں نے ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے ڈی آئی جی سردار راشد نعیم کے ہمراہ اعلی سطح اجلاس میں افسران کے علاوہ سول سوسائٹی کے نمائندوں کو بھی مدعو کیا تاکہ مشترکہ حکمت عملی اختیار کی جائے۔ ڈائریکٹر تعلیم سردار راشد آزاد، ڈائریکٹر تعلیم نسواں محترمہ ریحانہ اعجاذ، ایم ایس ڈاکٹر نسیم حسرت قاضی، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر راجہ محمد عارف محمود، صدر بار ایسوسی ایشن راجہ اعجاذ، ڈاکٹر واجد، ڈاکٹر سلیم، ڈاکٹر رفعت، انفارمیشن آفیسر راجہ علاؤالدین، صدر پریس کلب سردار راشد نذیر خان اور دیگر، اجلاس میں موجود تھے جن کے سامنے صورت حال پر غور اور تشویش کا اظہار کیا گیا کہ پونچھ ڈویژن میں اچانک کرونا میں اضافہ خطرے ناک صورت حال کی نشاندہی کر رہا ہے۔ اجتماعی کوششوں سے ہی اس کو روکا جا سکتا ہے ۔ حکام نے بتایا کہ جولائی میں 4281 ٹیسٹ میں 1161 مثبت آئے۔ جو 27 فیصد تھے ۔ تاہم گزشتہ 4 روز میں پازیٹو تناسب میں تیزی سے اضافہ ہو کر 53 فیصد ہو گیا جو خطرے ناک حد تک زیادہ ہے ۔ فیصلہ کیا گیا کہ ایس او پی اور سوشل ڈسٹنس پر سختی سے عمل کرانے کی ضرورت ہے عوام اپنی اور اپنے خاندان کی جان کی حفاظت کے لیے اس پر سختی سے عمل کریں ۔ پبلک مقامات ، ٹرانسپورٹ، مارکیٹس، بازاروں اور دفاتر میں ماسک کی پابندی کو صد فی صد یقینی بنایا جائے۔خلاف ورزی کی صورت میں 500 روپے جرمانہ وصول کیا جائے گا۔۔ یونیورسٹیز و میڈیکل کالج کے علاوہ تمام تعلیمی ادارے 15اگست تک بند رہیں گے۔ 10 اگست کے بعد ڈویژن بھر میں بغیر ویکسین ملازمین و سا ئلین کو سرکاری دفاتر ، مائیکر و سماٹ لاک ڈاؤن والے علا قہ جات اور مقامی سمیت، ہر قسم کے سیاحوں کے داخلہ پر پابندی ہو گی۔۔ ریونیو کورٹس مقدمات کی سماعت دو ہفتے تک موخر کر دی گئی جب کہ جوڈیشنل کورٹس کی سماعت ملتوی کرنے کے لیے رجسٹرار ہائی کورٹ سے درخواست کی گئی ہے۔ تاجر حضرات سے کہا گیا ہے کہ مالکان اور ملازمین کے لیے ویکسینشن کے عمل کو ایک ہفتے کے اندر یقینی بنایا جائے بصورت دیگر دوکان سیل کر دی جا ئے گی۔ انتظامیہ کے اقدامات اپنی جگہ لیکن عوام کو اپنے مفاد میں انتظامیہ کے فیصلوں پر سختی سے عمل درآمد اور کمیشنر پونچھ سے ہر صورت تعاون کرنا چاہیے جو ان کے اپنے مفاد میں ہے۔ کرونا کی روک تھام علاج سے زیادہ احتیاط سے ممکن ہے جو حکومت سے زیادہ عوام کے اختیار میں ہے ۔، ڈیلٹا کے سیلاب کے سامنے بند باندھنا ہے یا طوفان کے آگئیں دیوار کھڑی کرنی ہے ۔ جو بھی کرنا ہے اپنے خاندان اور خود اپنی جان بچانے کے لیے خود کرنا ہے ۔ مارچ کے دوسرے ہفتے میں ویکسینیشین کا عمل شروع ہوا تھا ایک حلقے نے اس کے خلاف افواہوں کی فکڑی کھول رکھی ہے عوام کو اتنا کنفیوز کیا جا چکا ہے کہ تعلیم یافتہ باشعور لوگ بھی تذبذب کا شکار ہو کر پوچھتے ہیں کیا درست اور کیا غلط ہے ۔ جس کی وجہ سے آج تک اس عمل میں تیزی نہیں آئی ۔ یہ حلقہ لوگوں کو ویکسینیشین سے روک کر عمران خان کی حکومت گرانے کے لیے لاکھوں انسانوں کی زندگیاں ختم کرنے چاتا ہے، بھارتی ہائبرڈ جنگ کا حصہ ہے جو ملک میں افراتفری چاتا ہے یا اس کے کوئی اور مقاصد ہیں اس پر تحقیقات ہونا چاہئے ۔ تاہم اقوام متحدہ کے ماہرین کے مطابق اس وباء کا علاج صرف اور صرف احتیاط اور ویکسینیشین ہے ۔ جو ویکسین دنیا میں تقسیم ہوئی اس کو اقوام متحدہ نے تسلیم کیا ہوا ہے۔ وفاقی حکومت 200 ارب روپے خرچ کر کے شہریوں کو ویکسین کی مفت سہولت فراہم کر رہی ہے۔ ملک بھر میں اسپتال ہیلتھ سینٹر کے علاوہ 3000 موبائل یونٹس گھر گھر جا کر کورونا ویکسین لگا رہے ہیں۔ مارچ سے اب تک تین کروڑ افراد کو ویکسین لگ چکی لیکن پندرہ کروڑ شہریوں کو ویکسین لگنے کے بعد ہم محفوظ ہو کر معمول کی سرگرمیاں جاری رکھنے کے قابل ہو جائیں گے ۔ پروپیگنڈہ فکٹری والے ہمیں وہاں تک پہنچنے سے روکنا چاتے ہیں ۔ تاکہ ہماری قومی زندگی معمول پر نہ آ سکے اور قوم ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائے۔ ابھی تو یہ صورت حال ہے کہ گزشتہ چند دنوں میں روزانہ 480 سے 500 افراد اسپتال پہنچ رہے ہیں۔ کراچی کے اسپتال ایک مرتبہ پھر بھر گئے ۔ اس سے ہہلے کہ ملک میں صحت کی سہولت ختم ہو مریض فٹ پاتھ پر دم توڑیں میتوں سے سڑکیں اور فٹ پاتھ بحر جائیں اور قبرستانوں میں جگہ کم پڑھ جائے عوام سے درخواست ہے کہ ماسک پہنیں، ہجوم میں جانے سے بچیں اور ویکسین لگوانا ترجیح اول رکھیں سم بند ہونے سے بچانے کے لیے نہیں جان بچانے کے لیے ۔ کرونا کی اس خطرے ناک لہر سے بچنے کا یہی علاج ہے۔۔۔۔ اس پر عمل کر کے ہم قابو پا سکتے ہیں ۔ انشاءاللہ