پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں نے جنگ زدہ ملک افغانستان میں پرتشدد واقعات میں اضافے اور سیکیورٹی کی خراب صورتحال کا الزام پاکستان پر عائد کرنے پر افغان حکومت پر شدید تنقید کی ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کمیٹی کے گزشتہ ہفتے ہونے والے ہنگامی اجلاس میں پاکستان پر طالبان کی پشت پناہی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا کہ ‘پاکستان امن کے لیے کھڑا ہے، ہمیں تنازعات سے کچھ حاصل نہیں ہوگا’۔
انہوں نے کہا کہ ‘درحقیقت کابل حکومت کو پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات کا جواب دینا چاہیے جو افغانستان سے اسپانسرڈ اور منظم ہوتی ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہر کوئی جانتا ہے کہ حمد اللہ جیسے لوگ کس کے لیے کام کرتے ہیں’۔
وزیر توانائی حماد اظہر نے پاکستان پر الزامات کو ‘بے بنیاد’ قرار دیتے ہوئے ٹوئٹ میں کہا کہ ‘افغان سیکیورٹی فورسز نے بڑے پیمانے پر مالی اعانت کے باوجود دہشت گردوں کے خلاف لڑائیوں میں متعدد مرتبہ رضاکارانہ طور پر ہتھیار ڈالے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘افغان حکومت کو اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرنا چاہیے، پاکستان کی خواہش ہے کہ افغانستان میں امن و استحکام آئے’۔
اسی طرح وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی روابط شہباز گِل نے ٹوئٹ میں کہا کہ ‘افغانستان کے 60 فیصد سے زائد حصے کا کنٹرول طالبان کے پاس ہے لیکن افغان حکام اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کے لیے مہم چلا رہے ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘روز ان کی فورسز ہتھیار ڈالتی ہیں اور روز یہ پاکستان پر الزام لگاتے ہیں، پروپیگنڈا نہ کریں بلکہ لڑیں’۔
قبل ازیں وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کا پریس کانفرنس کے دوران کہنا تھا کہ ‘پاکستان کا افغانستان کی سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور اس کی سلامتی پاکستان کے لیے بڑی سپورٹ ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘افغانستان سے متصل پاکستان کی تمام سرحدیں سیل ہیں بلکہ چمن کے ذریعے پھلوں کی آمدو رفت بھی رکی ہوئی ہے، لہٰذا افغانستان جانے افغانوں کا مسئلہ جانے، پاکستان اس میں کسی صورت ملوث نہیں ہے’۔
وفاقی وزرا کے یہ بیانات وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی پریس کانفرنس کے ایک روز بعد سامنے آئے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہم نے افغان حکومت پر زور دیا ہے کہ الزامات سےگریز کریں اور خطے امن، ترقی اور استحکام کے لیے درپیش مسائل کو دور کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ معنی خیز گفتگو کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن عمل ایک نازک موڑ پر ہے، اس وقت لازمی ہے کہ تمام تر توجہ افغانوں کی سربراہی میں جامع اور وسیع سیاسی حل نکالنے پر مرکوز ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ہم مسلسل کہتے آئے ہیں کہ افغانستان میں ہمارا کوئی فیورٹ نہیں ہے، ہم تمام فریقین میں کوئی تفریق نہیں کرتے کیونکہ وہ تمام افغان ہیں اور انہیں اپنے مستقبل کا انتخاب خود کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ پاکستان کو دوسروں کی ناکامیوں پر قربانی کا بکرا بنایا جائے، حکومت کی ناکامیوں اور افغان مسائل پر نظر رکھنا ان کا کام ہے نہ کہ پاکستان پر انگلیاں اٹھائی جائیں۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ افغان نمائندے نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں ڈس انفارمیشن پھیلائیں اور پاکستان کے خلاف بے بنیاد الزامات عائد کیے تاکہ عالمی برادری کو غلط معلومات دی جائیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم افغان نمائندے کے ان بے بنیاد الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔
قبل ازیں پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں افغانستان کے معاملے پر بحث میں شرکت کی اجازت نہ دینے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارے مخالفین کو مدعو کرکے اسلام آباد پر الزامات لگانے کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔
دفتر خارجہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ یہ انتہائی افسوسناک امر ہے کہ افغانستان کے قریبی پڑوسی کی حیثیت سے امن عمل میں مثبت کردار پر عالمی برادری کی پذیر آرائی حاصل کی، پاکستان کی سلامتی کونسل کے صدر سے درخواست ہے کہ وہ کونسل کے اجلاس سے خطاب کرے اور افغان امن عمل سے متعلق اپنا نقطہ نظر پیش کرے۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ ’دوسری جانب، کونسل کے پلیٹ فارم کو پاکستان کے خلاف جھوٹے بیانیے کو آگے بڑھانے کے لیے فراہم کردیا گیا تھا‘۔