اسلام آباد: جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) نے پانچ میں سے چار کی اکثریت سے فیصلہ کیا ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس احمد علی شیخ کو ایک سال کی مدت کے لیے سپریم کورٹ کا ایڈہاک جج بننے کے لیے مدعو کیا جائے گا بشرطیکہ وہ اپنی رضامندی ظاہر کریں۔
قبل ازیں سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے 5 اگست کو جے سی پی کو لکھے گئے ایک خط کے ذریعے اس تاثر کو ختم کیا تھا کہ انہوں نے کبھی ایڈہاک جج کی حیثیت سے سپریم کورٹ کی نشستوں میں شرکت کے لیے اپنی رضامندی ظاہر کی تھی۔
ایک باخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ جن لوگوں نے چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) گلزار احمد کی صدارت میں جے سی پی کے اجلاس کے دوران اس خیال کی مخالفت کی ان میں جسٹس قاضی فائز عیسی، جسٹس مقبول باقر، سابق سپریم کورٹ کے جج دوست محمد خان اور حال ہی میں مقرر کردہ پاکستان بار کونسل کے نمائندے ایڈووکیٹ اختر حسین شامل ہیں۔
جسٹس عیسیٰ جو حال ہی میں کورونا وائرس کا شکار ہوئے تھے، اجلاس کے دوران آکسیجن پر تھے۔
دوسری جانب چیف جسٹس گلزار ، جسٹس مشیر عالم ، جسٹس عمر عطا بندیال اور وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم نے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو سپریم کورٹ کا ایڈہاک جج مقرر کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔
اٹارنی جنرل آف پاکستان (اے جی پی) خالد جاوید خان نے بھی اس سفارش کی تائید کی تاہم کہا کہ منظوری سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی رضامندی سے مشروط ہونی چاہیے۔
ایس جے سی کے سامنے اے جی پی نے جسٹس احمد علی شیخ سے تحریری درخواست کی کہ وہ سندھ کے عوام اور سندھ ہائی کورٹ کے ادارے کے مفاد میں اپنے موقف پر نظر ثانی کریں، جسے ‘ہم سب پیار کرتے ہیں’۔
ذرائع کے مطابق دو گھنٹے 45 منٹ تک جاری رہنے والی ملاقات کے دوران ایک واضح اور کھلی بحث ہوئی۔
اس سے قبل جے سی پی نے پانچ میں سے چار کی اکثریت سے ہائی کورٹ کی سینیئرٹی لسٹ میں پانچویں نمبر پر موجود جسٹس محمد علی مظہر کو سپریم کورٹ میں ترقی دینے کی منظوری دی تھی۔
اس فیصلے پر پاکستان بار کونسل کی طرف سے سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا تھا جو کہ ایک اہم وکیلوں کی تنظیم ہے۔
صورتحال پر رائے دیتے ہوئے ایک سینئر وکیل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ یہ تجویز اس وقت شکست کھا جائے گی جب جسٹس احمد علی شیخ اپنی رضامندی نہ دینے کا انتخاب کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے پہلے ہی درخواست کی گئی تھی کہ وہ اپنی رضامندی نہ دینے کے اپنے پہلے کے موقف پر غور کریں اور اگر وہ اب بھی اپنے پہلے فیصلے پر قائم رہے تو اس کہانی کا اختتام ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘تاہم اگر وہ سپریم کورٹ کا ایڈہاک جج بننے پر راضی ہو جاتے ہیں تو وہ پھر بھی چیف جسٹس کا عہدہ رکھ سکیں گے اور سینئر جج کو سندھ ہائی کورٹ کا قائم مقام چیف جسٹس مقرر کیا جائے گا’۔
سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی ایچ بی اے) کے صدر صلاح الدین احمد نے کہا کہ وہ اس فیصلے سے خوش ہیں کیونکہ اے جی پی کے موقف نے بظاہر یہ تجویز دی تھی کہ تحریک ناکام ہو گئی ہے کیونکہ چار اقلیتی ارکان نے اس تجویز کو نامنظور کر دیا ہے جبکہ ایک نے ووٹ دیا کہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری کے لیے ضروری رضامندی ہے۔