مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی جانب سے قبل از وقت انتخابات کی افواہوں کے باعث قومی حکومت کی تشکیل کے بیان نے ملک میں سیاسی بحث کو جنم دے دیا ہے۔
حیران کن ردعمل میں مسلم لیگ (ن) نے پارٹی کے صدر کے بیان کو الیکشن کے بعد پیدا ہونے والے حالات کی بنیاد پر ان کی ‘ذاتی’ رائے قرار دیا۔
اس بیان کی ٹائمنگ کے حوالے سے سوال پر دوسری اپوزیشن جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے کہا کہ یہ بیان اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا اب کوئی وجود نہیں ہے۔
پیپلز پارٹی کا خیال ہے کہ یہ مسلم لیگ (ن) کے صدر کی خود کو سیاسی طور پر زندہ رکھنے کی کوشش ہے۔
حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے بھی مسلم لیگ (ن) کے صدر کے بیان پر تنقید کی اور وفاقی وزیر اطلاعات کو نشریات فواد چوہدری نے کہا کہ شہباز شریف کی قومی حکومت کی تجویز ‘اپنے آپ کو بچانے کی کوشش ہے’۔
بظاہر سیاسی طور پر نقصان سے بچنے کی کوشش کے طور پر مسلم لیگ (ن) کی سیکریٹری اطلاعات مریم اورنگزیب نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ جس میں ‘واضح’ کیا گیا کہ پارٹی صدر نے کراچی میں صحافیوں سے ملاقات کے دوران اپنی ‘ذاتی’ رائے کی بنیاد پر ‘پاسنگ ریمارکس’ دیے۔
انہوں نے کہا کہ ‘مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کے کہنے کا یہ مطلب تھا کہ اگر عوام نے اگلے عام انتخابات کے بعد (ن) لیگ کو ایک بار پھر حکمرانی کا موقع دیا تو ان کی ذاتی رائے یہ ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کو عمران خان کی حکومت کی جانب سے اپنے تباہ کن دور میں کھڑے کیے گئے بڑے بڑے تنازعات کے حل کے لیے کردار ادا کرنے کی دعوت دینے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘کسی میڈیا ادارے کی جانب سے اس سے ہٹ کر کوئی خبر پیش کرنا مسلم لیگ (ن) کے صدر کے بیان کی نفی اور غلط بیانی ہوگی’۔
شہباز شریف نے اپنے تین روزہ دورہ کراچی کے آخری روز صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کے دوران کہا تھا کہ خارجہ پالیسی سے لے کر معیشت اور سیاسی غیر یقینی کی صورتحال سے لے کر حقیقی جمہوری قوتوں کے لیے تیزی سے کم ہوتی جگہ تک پھیلے قومی مسائل کا حل متفقہ قومی حکومت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘حقیقت میں اگر میں آپ کو بتاؤں تو بعض دفعہ جب میں بڑے بڑے مسائل اور چیلنجز کی طرف دیکھتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ انہیں حل کرنا کسی ایک جماعت کے بس کی بات نہیں ہے، اس کے لیے مشترکہ دانش اور کوششوں کی ضرورت ہے، اس لیے میرے خیال میں ان چیلنجز کو حل کرنے کے لیے قومی حکومت قائم ہونی چاہیے’۔
مسلم لیگ (ن) کے ایک عہدیدار سے جب یہ پوچھا گیا کہ پارٹی کے صدر کی میڈیا سے گفتگو کے دوران کسی رائے کو ‘ذاتی رائے’ کیسے سمجھا جاسکتا ہے تو انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ‘چونکہ قومی حکومت کی تشکیل کے معاملے پر پارٹی کے کسی فورم پر غور نہیں کیا گیا، اس لیے شہباز شریف کے بیان کو پارٹی پوزیشن نہیں سمجھا جاسکتا’۔
سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے صدر کے بیان سے پارٹی میں دو بیانیے کی موجودگی کا تاثر مضبوط ہوا ہے اور جو آزاد جموں و کشمیر کے حالیہ انتخابات میں بھی نظر آیا جب پارٹی کی پوری انتخابی مہم مریم نواز نے چلائی جبکہ شہباز شریف عوامی اجتماعات سے دور رہے۔
مریم اورنگزیب نے بعد ازاں گزشتہ ماہ پارٹی میں دو بیانیے کی موجودگی کی رپورٹس کو مسترد کیا تھا اور ان رپورٹس کو حکومت کی منصوبہ بندی کے تحت چلائی گئی مہم کا حصہ قرار دیا تھا تاکہ عوام کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹائی جاسکے۔