وعدے پورے کریں تو امریکا طالبان حکومت کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہے، انٹونی بلنکن

امریکی سیکریٹری اسٹیٹ انٹونی بلنکن کا کہنا ہے کہ امریکا وعدے اور فرائض پورے کرنے پر طالبان حکومت کے ساتھ کام کر سکتا ہے بصورت دیگر ایسا نہیں ہوگا۔

انٹونی بلنکن نے افغانستان کی خبر رساں ایجنسی ‘طلوع نیوز’ کو بتایا کہ ‘میری امید اور امید سے بڑھ کر توقع یہ ہے کہ افغانستان کی آئندہ حکومت بنیادی (انسانی) حقوق برقرار رکھے گی، اور اگر وہ ایسا کرتی ہے تو، یہ وہ حکومت ہوگی جس کے ساتھ ہم کام کرسکتے ہیں ، اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو ہم ان کے ساتھ کام نہیں کریں گے۔

امریکا کے طالبان کو تسلیم کرنے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ‘یہ مکمل طور پر اس پر انحصار کرتا ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں نہ کہ اس پر کہ وہ کیا کہتے ہیں اور ہمارے اور باقی دنیا کے ساتھ ان کے تعلقات کی رفتار ان کے اقدامات پر منحصر ہے’۔

یاد رہے کہ منگل کو طالبان نے عبوری حکومت کا اعلان کیا تھا جس میں گروپ کے پرانے سپاہی غالب ہیں۔

گروپ کے مرحوم بانی ملا عمر کے قریبی ساتھی محمد حسن اخوند نئی حکومت کے سربراہ ہیں۔

جب ڈان نے عبوری حکومت سے متعلق امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے ان کا رد عمل جاننا چاہا تو ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ ‘ہم نے اعلان دیکھ لیا ہے اور اب اس کا جائزہ لے رہے ہیں۔

ترجمان نے مزید کہا کہ ہم نے نوٹ کیا کہ اعلان کردہ ناموں کی فہرست ان لوگوں پر مشتمل ہیں جو طالبان اراکین ہیں یا ان کے قریبی ساتھی ہیں جبکہ ان میں کسی خاتون کا نام شامل نہیں ہے’۔

امریکی عہدیدار کا کہنا تھا کہ امریکا کو ‘حکومت کی فہرست میں موجود کچھ افراد کی وابستگیوں اور ٹریک ریکارڈ پر تشویش ہے’۔

واضح رہے کہ عبوری کابینہ نے سربراہ ملا محمد حسن اخوند اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ میں شامل ہیں جبکہ وزیر داخلہ سراج الدین حقانی امریکی ایف بی آئی کو مطلوب ہیں۔ ایف بی آئی نے سراج الدین حقانی کی گرفتاری کے لیے معلومات فراہم کرنے پر 50 لاکھ ڈالر کا انعام رکھا ہے لیکن منگل کو انعام بڑھا کر ایک کروڑ ڈالر کردیا تھا۔

اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ‘ہم سمجھتے ہیں کہ یہ طالبان کی عبوری حکومت ہے، حالانکہ ہم طالبان کو ان کے لفظوں سے نہیں ان کے عمل سے پرکھیں گے، ہم اپنی توقعات واضح کر چکے ہیں کہ افغان شہری ایک جامع حکومت کے مستحق ہیں’۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم طالبان کو غیر ملکیوں اور افغان شہریوں کو سفری دستاویزات کے ہمراہ محفوظ سفر کی اجازت کے وعدے پر قائم رکھیں گے جس میں ان پروازیں کی اجازت بھی شامل ہے جو فی الحال افغانستان سے پرواز بھر کر منزل مقصود تک جانے کے لیے تیار ہیں۔

ہم اپنی واضح توقعات کا بھی اعادہ کرتے ہیں کہ طالبان اس بات کی یقین دہانی کرائیں کہ افغان سرزمین کسی ملک کو خطرہ پہنچانے کے لیے استعمال نہیں کی جائے گی اور افغان عوام کی حمایت میں انسانی رسائی کی اجازت دی جائے، دنیا میں جو انہیں قریب سے دیکھ رہے ہیں۔

جب انٹرویو لینے والے نے انٹونی بلنکن طالبان پہلے ہی ان وعدوں کی خلاف ورزی کر چکے ہیں جو انہوں نے کیے تھے تو انہوں نے کہا کہ’ہم دیکھیں گے کہ آیا یہ بدسلوکی کے ان واقعات میں سے کسی ایک کو درست کرتے ہیں، یہ بہت اہمیت کا حامل ہوگا’۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا امریکا صدراشرف غنی کےافغانستان فرار ہونے کے حوالے علم رکھتا تھا یا انہیں سہولت فراہم کی گئی تھی تو ان کا کہنا تھا کہ اشرف غنی نے فرار ہونے سے قبل رات گئے فون پر صدر سے بات کی تھی۔

انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ موت سے جنگ لڑنے کو تیار تھے، 24 گھنٹوں سے کم وقت میں وہ افغانستان چھوڑ گئے، تو میں اس حوالے سے کچھ نہیں جانتا اور ہم نے انہیں سہولت فراہم کرنے کے حوالے سے یقینی طور پر کچھ نہیں کیا ہے۔