امریکا نے حوثی باغیوں کے حملوں کے باوجود سعودی عرب سے اپنا میزائل نظام ہٹا دیا

سیٹلائٹ تصاویر میں دیکھا گیا کہ امریکا نے سعودی عرب میں نصب اپنا ایڈوانس دفاعی میزائل سسٹم اور پیٹریاٹس بیٹریاں رواں ہفتے ہٹا دیا ہے حالانکہ سعودی عرب کو حوثی باغیوں کی جانب سے مسلسل فضائی حملوں کا سامنا ہے۔

ریاض سے باہر واقع شہزادہ سلطان ائیر بیس سے دفاعی سسٹم کی واپسی تب سامنے آئی جب امریکا کا خلیجی اتحادی افغانستان سے افراتفری میں ہونے والے امریکی فوجی انخلا بشمول کابل کے محصور ائیر پورٹ سے انخلا کے آخری لمحے تک مضطرب تھا۔

تاہم امریکی فوج کے ہزاروں سپاہی ایران سے مقابلے کے لیے عرب کے پورے خطے میں موجود ہیں، خلیجی ممالک امریکی مستقبل کے منصوبوں پر فکر مند ہیں جیساکہ ان کی فوج کو ایشیا میں خطرات بڑھ رہے ہیں، جس کے لیے انہیں مذکورہ دفاعی میزائل کی ضرورت ہے، ایران کاعالمی طاقتوں سے جوہری معاہدے سے متعلق ویانا میں ہونے والے مذاکرات کے تعطل سے کشیدگی بدستور عروج پر ہے، جس سے خطے میں مستقبل میں محاذ آرائی کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔

رائس یونیورسٹی کے جیمز اے بیکر تھری انسٹیوٹ برائے پبلک پالیسی کے محقق کرسٹین الریچسین کا کہنا تھا کہ ‘تصورات ضروری ہوں یا نہ ہوں، وہ سرد سے سرد حقیقت کی بنیاد پر ہیں، اور یہ تاثر واضح ہے کہ امریکا خلیج کے لیے اتنا پُرعزم نہیں ہے جتنا اس خطے کے لوگ اور فیصلہ ساز منتظمین خیال کیا کرتے تھے’۔

سعودی نظریے کے مطابق وہ اب تین کامیاب صدور باراک اوباما، ڈونلڈٹرمپ اور جوبائیڈن کو دیکھ رہے ہیں جو ایسے فیصلے لیتے ہیں کہ کسی تک حد ان کے دستبردار ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں۔

سلطان ائیر بیس ریاض کے جنوب مشرق سے 115 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے، سعودی کے تیل کے ذخائر کے مرکز پر 2019 سے ہزاروں امریکی فوجی دستے موجود ہیں جب میزائل اور ڈرون حملے کیے گے تھے۔

گوکہ یمن کے حوثی باغیوں نے ان حملوں کا دعویٰ کیا تھا جبکہ ماہرین کے مطابق جو شواہد اور ملبہ ملا ہے، اس سےظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایران نے کیا تھا۔

ایران حملوں کی تردید کرچکا ہے تاہم جنوری میں ہونے والی ایک مشق میں ایرانی نیم فوجی دستوں نے اسی طرح کے ڈرون استعمال کیے تھے۔

ائیر بیس کے رن وے کے بالکل جنوب مغرب میں ایک کلومیٹر علاقے کے کنارے میں امریکی فورسز نے پیٹریاٹ میزائیل بیٹریز نصب کی ہیں اور اس کے ساتھ جدید ٹرمینل ہائی آلٹیٹیوڈ ایریا ڈیفنس یونٹ بھی ہے، پلانیٹ لیبز انکارپوریشن اکی سیٹیلائٹ تصاویر کے مطابق ایک جدید ٹرمینل ہائی آلٹیٹیوڈ ایریا ڈیفنس پیٹریاٹس کے مقابلے میں زیادہ اونچائی پر بلیسٹک میزائیل کو تباہ کرسکتا ہے۔

اگست میں سیٹیلائٹ تصاویر میں دیکھا گیا تھا کہ علاقے سے کچھ بیٹریز ہٹالی گئی ہیں، تاہم وہاں اب بھی گاڑیاں اور سرگرمیاں دیکھی جاسکتی ہیں، جمعے کو پلانیٹ لیب کی لی گئیں ہائر ریزولوشن تصاویر میں دکھایا گیا کہ سائٹ پر بیٹری کے پیڈ بغیر کسی سرگرمی کے خالی ہیں۔

میزائل ہٹانے سے متعلق افواہیں مہینوں سے گردش کر رہی تھیں جو امریکی عہدیداروں کی اس خواہش کا حصہ تھیں جو انہیں بڑی طاقتوں روس اور چین کے ساتھ ابھرنے والے تنازع کا سامنا کرنا تھا۔

تاہم انخلا سعودی عرب پر حوثی حملوں سے 8 افراد کے زخمی ہونے اور مملکت کے ابھا ائیر پورٹ پر کھڑے کمرشل طیارے کو نقصان پہنچنے کے فوری بعد ہوا تھا، سعودی عرب 2015 سے حوثیوں کے ساتھ یک طرفہ جنگ میں پھنسا ہوا ہے۔

پینٹاگون کے ترجمان جان کیبری نے تسلیم کیا کہ مخصوص فضائی دفاعی تنصیبات ہٹادی گئی ہیں اور کہا کہ امریکا کی اہنے مشرقی وسطیٰ کے اتحادی کے ساتھ وسیع اور گہری وابستگی بدستور برقرار ہے۔

انہوں نے کہا کہ محکمہ دفاع مشرق وسطیٰ میں ہزاروں فورسز اور مضبوط فورس کی حیثیت برقرار رکھی ہوئی ہے جو امریکا کے قومی مفاد اور ہمارے خطے کے شراکت داروں کے تعاون کے لیے ہماری چند جدید ایئرپاور اور میری ٹایم صلاحیتوں کا مظہر ہے۔

ایک بیان میں سعودی وزارت دفاع نے بتایا کہ سعودی عرب اور امریکا کے درمیان مضبوط، طویل اور تاریخی تعلقات ہیں جبکہ امریکی میزائل سسٹم کے انخلا کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ سعودی فوج اپنی سرزمین، سمندروں، فضائی حدود اور شہریوں کی حفاظت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ دوست ملک امریکا کی جانب سے دفاعی نظام باہمی مشاورت اور نئی دفاعی حکمت عملی کے پیش نظر ہٹایا گیا ہے

ان یقین دہانیوں کے باوجود سعودی عرب کے سابق انٹیلی جینس سربراہ ترکی الفیصل، جن کے عوامی تبصرے اکثر شاہی خاندان آل سعود کے خیالات سے ملتے ہیں، نے پیٹریاٹ میزائلوں کی تنصیب امریکا کے ریاض سے براہ راست تعلق سے جوڑ دیا۔