مگر آپ کی حقیقت ہی کیا بے؟
سچ تو یہ ہے،
بشیر سدوزئی ۔
18 ستمبر 2021ء کو شائع ہونے والےمیرے کالم "گلگت عبوری صوبہ۔۔۔ جماعت اسلامی کی بامقصد قرار داد "۔ پر کافی دوستوں نے تاثرات لکھے ہیں، جن کی طویل فہرست ہے۔ لیکن یہاں چند ایک کے درج کرنے کا مقصد یہ سمجھنا ہے کہ عوام مسئلہ کشمیر کو کس تنازر میں دیکھتے ہیں ۔ میرے محترم اور جماعت اسلامی پاکستان کے سنئیر رہنماء مسلم پرویز نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ” سلام، برادر پورا مضمون پڑھا۔خوب لکھا مگر آپ کی حقیقت ہی کیا ہے؟ آپ ایک خونی سولین ہیں، تو اپنے آپ میں رہو۔اور آقاؤں کو کرنے دیں ، جو ان کی خواہش ہے۔ ان کی اطاعت کریں جیسا کہ وہ چاہتے ہیں۔ ہم ایسا ہی کرتے ہیں اس لیے کہ ہر وہ پاکستانی اگر غدار نہیں ہے تو ان کی بات ماننے کا پابند ہے۔ اب کشمیر نہیں ہے ، بھول جاؤ اس کو ، یہی وہ چاہتے ہیں۔ آپ اور ہم جدوجہد کر سکتے ہیں ، لہٰذا اللہ کی طرف سے پھلوں کو حاصل کرنے کی انتظار کریں” ۔ پونچھ یونیورسٹی کے سنئیر پروفیسر ڈاکٹر سردار محمد رحیم خان نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ” ہر سطح پر سیاستدانوں کا بدقسمت کردار رہا ہے ۔ اقتدار کی لالچ پیسے کی بھوک نے ہمیں ایک بند گلی میں دھکیل دیا۔ معاہدوں کی شکل میں سیاسی غلطیوں نے آزادی کے اس تاریخی مسئلے کو سبوتاژ کردیا۔ آزادی کی قوتوں کی توانائی ضائع ہو گئی۔انشاء اللہ اچھے وقت کی امید ہے” ۔ ایک اور سنئیر استاد ڈاکٹر پروفیسر سردار محمد اسلم خان نے تبصرہ یوں لکھا کہ ۔ جماعت اسلامی کی قرار داد آزاد کشمیر کی حکومت کو ریاست کی نمائندہ حکومت تسلیم کرنا ٹھیک ہے۔ امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر خالد محمود کی موجوگی میں کشمیر کے سودے کا ایسا کوئی خطرہ نہیں چونکہ ڈاکٹر خالد کے خون میں اپنے اسلاف سبز علی خان ملی خان اور غازی ملت کے اوصاف موجود ہیں یہ شہداء غازیوں کے خون اور قربانیوں کی حرمت کا پاسبان ہے۔یہ قابل عمل نمائندہ حکومت تسلیم کرنا لبریشن لیگ ، کے ایچ خورشید محرحوم کا بھی بنیادی منشور اور ماٹو تھا”۔اسلام آباد کے معروف تاجر اور کشمیر کے سماجی رہنماء سردار محمد اجمل خان نے اس پر یوں تبصرہ کیا کہ
” گلگت بلتستان کے بعد یہی کچھ آزاد کشمیر کے ساتھ ہونے والا ہے۔ اسطرح یہ جہلی شوربہ چلتا رہے گا لوگوں کو بیوقوف بنانے کے لیے” آزاد کشمیر کے سماجی رہنماء اور ایجوکیشنل ریفارمر سردار ڈاکٹر غلام حسین خان کا کہنا ہے کہ” جناب بشیر صاحب اسلام وعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ نے بہت اچھا لکھا۔ آپ کو بہت بہت مبارک ہو ہم تو غلام بن کر رہ گئے ہیں آپ کیا کریں گے ہمارے لئے کوئی راستہ ہمارے جوان کیسے نکالیں گے اللہ تعالی آپ کو خوش رکھے آمین” اس کے علاوہ بھی کافی خواتین و حضرات نے اس کالم پر تبصرہ لکھا۔ چند ایک کو یہاں شائع کرنا کا مقصد یہ سمجھنا ہے کہ پاکستان اور خاص طور پر کشمیری عوام موجودہ صورت حال کو کس تناظر میں دیکھتے ہیں ۔ مجموعی طور پر جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوری کی قرار داد گلگت بلتستان سمیت آزاد کشمیر کی حکومت کو ڈوگرہ کی جانشین حکومت تسلیم کرنا بروقت اور فی زمانہ کہا گیا ہے۔ تاہم غالب رائے یہ ہے کہ قرار داد کے کاغذ کو فائل میں رکھ کر بیٹھ جانے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ بلکہ جماعت اسلامی کی قیادت تحریک آزادی کشمیر میں ماضی کے مدوجزر کی روشنی میں اس قرار داد کے لیے حمایت اور تائید حاصل کرنے کے لیے عوام کے پاس جائے۔گو کہ حالیہ انتخابات میں جماعت اسلامی آزاد کشمیر کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد بہت کم ہے۔ لیکن اس تاثر کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ یہ چناو تو سوک مسائل کے حل کے لیے ہوتے ہیں۔ چایے مظفرآباد کی کرسی کے لیے ہوں یا سری نگر کی۔ تحریک آزادی کشمیر سے ان کا کوئی واسطہ نہیں ۔۔۔ عوام اس حقیقت کو سمجھ چکے ہیں کہ آج اگر ریاست جموں و کشمیر تقسیم در تقسیم کے مراحل میں ہے تو اس میں کشمیری قیادت کا ہی قصور ہے ۔شیخ عبداللہ ، مفتی محمد سعید، یا بخشی غلام محمد، چوہدری غلام عباس ہوں یا سردار عبدالقیوم خان۔ ان کے کردار میں کوئی خاص فرق نہیں ۔ان سب کے ذاتی مفادات اور خاندانی سیاست کی ترقی کی خواہش نے آج کشمیر اور کشمیریوں کی جغرافیائی اور نظریاتی تقسیم کو بڑھوتی دی۔ ۔ سب سے زیادہ ذمہ داری آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت کی تھی کہ وہ بیس کیمپ کو آزادی کی تحریک کا مرکز بناتی۔ کے ایچ خورشید نے جب تحریک آزادی کی درست سمت کے تعین کی نشان دہی کی تو سردار محمد ابراہیم خان نے کھل کر حمایت نہیں کی تو مخالفت بھی نہیں کی۔ لیکن سردار عبدالقیوم خان مخالفت سے بھی آگئیں نکل کر سازشوں میں مصروف ہو گئے ۔ بظاہر تو وہ اپنے اقتدار کے لیے کوشاں تھے لیکن گزرتے وقت نے ثابت کیا کہ ان کی یہ کوشش کے ایچ خورشید کے خلاف نہیں عملی طور پر اس کا نقصان تحریک آزادی کشمیر کو ہی ہوا ۔ تحریک کے لیے جسے وکیل مقرر کیا گیا تھا وہ خود ہی مجبوریاں اور مسائل میں پھنسا رہا۔ جس کی سفارتی اور بین الاقوامی تعلقات کی ترجیحات ہر گزرتے وقت کے ساتھ بدلتی رہیں ۔ ان حالات میں ایک قوم اور ریاست کی آزادی کا مسئلہ پاکستان، بھارت اور کشمیری حریت پسندوں کے درمیان تنازع میں بدل گیا۔ حریت پسندوں میں کچھ لوگ جموں و کشمیر کی خود مختاری کے حامی ہیں اور زیادہ پاکستان کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔بھارت پورے جموں اور کشمیر پر ملکیت کا دعوے دار ہے۔موجودہ صورت حال میں بھارت کا کنٹرول کشمیر کے 43 فیصد حصے پرہے جس میں مقبوضہ کشمیر(وادی) ، جموں، لداخ، وادی چناب، وادی پیر پہنجال اور سیاچن گلیشئر کے علاقے شامل ہیں جب کہ 37 فیصد حصہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کا ہے۔اس 37 فیصد حصہ کو جو 1947 میں عوام نے خود آزاد کرایا ڈوگرہ کی جانشین حکومت کے طور پر تسیلم کر لیا جائے تو کشمیری بقیہ 43 فیصد علاقے کی آزادی کے لیے سفارتی اور سیاسی تحریک چلا کر بھارت کو رائے شماری پر مجبور کر سکتے ہیں ۔ رائے شماری میں عوام فیصلہ کریں گے کہ وہ بھارت کے ساتھ رہنا چاتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ ۔ بھارت کو تو اندازہ ہے کہ اکثریت پاکستان کے حق میں فیصلہ کرے گی لیکن لیاقت علی خان سے عمران خان تک پاکستانی قیادت اس طرف توجہ اور کشمیریوں کو سفارت کاری کے اختیارات کیوں نہیں دیتی یہ شاید کشمیری قیادت سمجھانے میں ناکام رہی ہے ۔