اسلام کے مشہور مبلغ مشہور صوفی بزرگ حضرت سید علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ
آپ کا اسم گرامی علی ابوالحسن کنیت اور گنج بخش لقب ہے آپ کو علی ہجویری یا جلابی کہا جاتا ہے۔ آپ حسنی سید ہیں آپ کا سلسلہ نسب نوواسطوں سے داماد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، شیر خدا سیدنا حضرت علی علیہ السلام سے جا ملتا ہے آپ کا خاندان علم و تقویٰ سے متصف تھا آپ کے ماموں کا لقب تاج الاولیاء تھا جس محلے میں ان کا مزار تھا وہ بھی اسی نام سے مشہور و معروف ہوا۔ حضرت علی ہجویری رحمۃااللہ علیہ کے والدین کی آخری آرام گاہ اسی قبرستان میں ہے جس کی زیارت گیارہویں صدی ہجری میں شہزادہ دارا شکوہ نے کی تھی۔ حضرت سید علی ہجویری 400 ہجری بمطابق 1009 ء میں سلطان محمود غزنوی کے عہد حکومت میں دارلسلطنت غزنہ (غزنی) میں پیدا ہوئے۔ سلطان محمود غزنوی کا عہد 388ھ 421ھ بمطابق 998 ء تا 1030ء دارالحکومت غزنہ (غزنی) کے عروج کا دور تھا۔ حضرت سید علی ہجویری 431ہجری تک غزنہ میں ہی مقیم رہے۔ آپ نے اپنی نسبت خود الجلابی الغزنوی، الہجویری تحریر فرمائیں۔ جلاب اور ہجویر غزنی کے دو محلوں کا نام ہے۔ ایک محلے سے دوسرے محلے منتقل ہوتے تھے آپ کی والدہ کی قبر غزنی میں آپ کے ماموں تاج اولیاء کے مزار سے متصل ہے۔ آپ کا تمام خاندان زاہد و تقویٰ کے حوالے سے مشہور تھا۔ حضرت سید علی ہجویری مسلک اہلسنت سے تعلق رکھتے تھے اور فقہی مکاتب فکرمیں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک حنفی سے وابستہ تھے۔حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ برصغیر پاک وہند کے اولین مبلغین اسلام میں سے ہیں اور ان کا مزار گوہریار ان کے فیضان کی وجہ سے عرصہ ایک ہزار سال سے مرجع خواص و عوام چلا آرہا ہے اور ان کی کشف المحجوب دنیائے عالم میں شہرت و مقبولیت رکھتی ہے گنج بخش کا لقب درحقیقت آپ کو زیبا ہے کیونکہ آپ نے اپنی ساری زندگی میں علوم و معارف اور حکمت و دانائی کے خزانے خلق خدا میں تقسیم فرمائے۔ "کشف المحجوب” جیسا بے مثل خزانہ جسے بجا طور پر تصوف کا دستور العمل کہا جاتا ہے کشف المحجوب میں آپ کے سفر کی یاد داشتیں ملتی ہیں۔ اس حوالے سے یہ کتاب اسلامی دنیا کے مذہبی علمی اور ثقافتی حالات کے مطالعے کے لئے خاص اہمیت کی حامل ہے آپ کی زندگی ایک ایسے دور میں امر ہوئی جب کرہ ارض کے کم و بیش ایک تہائی حصہ پر مسلمانوں کی حکومت تھی۔ حضرت داتاگنج بخشؒ نےاپنی زندگی کا بڑا حصہ سیاحت میں گزارا اور آپ چالیس سال مسلسل سفر میں رہے اس دوران اپنے دور کے اکابر صوفیاء کرام کی زیارت کی اور ان کے فیض صحت سے مستفید ہوئے۔ آپ نے تمام اسلامی ممالک مثلاََ شام، عراق، بغداد، فارس، آذربائیجان، کرمان، خراسان، ترکستان،خوزستان، نیشاپور، سرخس، دیار، ہند اورحجاز مقدس کا سفر کیا۔ خراسان میں آپ نے تین سو مشائخ سے ملاقاتیں کیں۔ چالیس برس کی طویل مسافرت کے باوجود حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ ایک وقت کی نماز نہ چھوڑی اور نہ ہی کسی جمعہ کا ناغہ ہوا۔
تبلیغی مقاصد کے تحت سب سے پہلے لاہور آنے والے بزرگ حضرت شیخ اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ ہیں جنہوں نے لاہور میں اشاعت اسلام اور تبلیغ و ترویج دین کے لیے دن رات کوششیں کیں آپ کے وغط کی تاثیر کا یہ عالم تھا کہ وغط کے اختتام پر کثرت سے لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتے تھے۔ حضرت سید علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ جحۃ الاسلام امام غزالیؒ کے ہم عصر تھے آپ کی تبلیغ و تعلیم کے ذریعے مختصر ترین مدت میں ہزاروں لوگ عالم بن گئے۔ آپ کے حالات زندگی کا سب سے باوثوق مرجع آپ کی تصنیف” کشف المحجوب” ہے اسی کے مطالعے سے آپ کی زندگی کے حالات پر روشنی پڑتی ہے حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ عراق کا ایک واقعہ اپنے متعلق بیان کرتے ہیں کہ عراق میں اپنے قیام کے زمانے میں ایک دفعہ میں دنیا کمانے اور اسے خرچ کرنے میں بہت دلیر ہوگیا تھا جس کسی کو ضرورت پیش آتی وہ میری طرف رجوع کرتا اور میں نہ چاہتا کہ کوئی بھی میرے دروازے سے خالی ہاتھ جائے اس لیے ہر سوالی کی ضرورت پوری کرنے کی کوشش کرتا یہاں تک کہ میں بہت زیادہ مقروض ہوگیا اور اس صورتحال سے پریشان ہو گیاآخروقت کے بزرگوں میں سے ایک بزرگ نے مجھے لکھا بیٹا دیکھو! اس قسم کی مشغولیت میں کہیں خدا سے دور نہ ہو جانا اگر کسی کے دل کو اپنے سے بہتر پاؤ تو اس کی خاطر پریشانی اٹھاؤ تمام مخلوق کے کفیل بننے کی کوشش نہ کرو کیونکہ اپنے بندوں کے لئے اللہ خود ہی کافی ہے فرماتے ہیں کہ اس نصیحت سے مجھے سکون قلب حاصل ہوا میں نے یہ جانا کہ مخلوقات سے دور رہنا صحت و سلامتی کی راہ ہے انسان کو چاہیے کہ وہ خود اپنی طرف نہ دیکھے تاکہ کوئی اور بھی اس کی طرف نہ دیکھیں یہ حقیقت ہے کہ آدمی خود ہی اپنے آپ کو اہم اور بڑی چیز خیال کرتا ہے ورنہ دنیا اسے کچھ بھی نہیں سمجھتی وہ تو صرف اس سے اپنا مقصد نکالتی ہے۔ حضرت علی ہجویری داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ نے شیخ ابوالفضل ختلی کے علاوہ جن بزرگوں سے فیضان حاصل کیا ان میں حضرت ابو سعید ابو الخیر رحمۃاللہ علیہ اور رسالہ قشیریہ کے مصنف امام ابو القاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اپنے شیخ ختلی کے بارے میں داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں وہ صوفیائے متاخرین میں زینت اوتار اور شیخ عباد ہیں طریقت میں میری بیعت انہیں سے ہے۔ تصوف میں حضرت جنیدرحمۃ اللہ علیہ کا مذہب رکھتے ہیں- سالہا سال مرشد کامل کی خدمت میں شب و روز مصروف رہے حتیٰ کہ حضرت ابوالفضل ختلی رحمۃ اللہ علیہ کا جب وصال ہوا تو ان کا سر مبارک حضرت علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ کی گود میں تھا اس سے قرب اور محبت کا بھی پتا چلتا ہے جو مرشد کامل کو اپنے نورِ نظر روحانی شاگرد سے تھی۔ حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کشف المحجوب میں واضح کیا ہے کہ
اسلامی قانون و شریعت اور عوام و معارف میں قرآن مجید اور حدیث نبویﷺ کو بنیادی ماخذ کی حیثیت حاصل ہے یعنی اسلام کے بنیادی اصول اور اساسی تعلیمات قرآن مجید میں محفوظ اور موجود ہیں جبکہ رسول اللہﷺ کی سنت طیبہ اور حضرت محمدﷺ کے احادیث مبارکہ کو توصیفی اختیارات اور تشریحی مرتبہ حاصل ہے۔ جس کی اعلامیہ حیثیت مسلمہ ہے جیسا کہ آپ نے کشف المحجوب میں تحریر فرمایا ہے "شریعت کا پہلا رکن کتاب اللہ ہے جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس میں آیت محکمات ہیں جو اصل کتاب ہیں "دوسرا رکن سنت رسولﷺ ہیں جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے ”جو کچھ تمہیں رسولﷺ عطا فرمائے اس کو لے لو اور جس سے منع فرمائیں اس سے رک جاؤ“ اور تیسرا رکن اجماع امت ہے۔ چنانچہ آپﷺ نے فرمایا ”میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوتی بڑے گروہوں کا ساتھ اختیار کرو“ کشف المجوب درحقیقت وہ آئینہ ہے جس میں داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کا حسن علم ومعرفت اور حسن عمل پوری تابانیوں کے ساتھ جھلکتا ہے اس کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک رفیق سفر، ایک ہمدم و دمساز، ایک شفیق چارہ گر، ایک ناصح مشفق اور ایک ایسا روحانی معالج ہم کلام ہے جس کا ہاتھ نفس انسانی کی نبض پر ہے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ 587ہجری میں لاہور تشریف فرما ہوئے تو حضرت داتا گنج بخشؒ کے احاطہ مزار پر متعکف ہوئے اور اختتام اعتکاف پر” گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا ناقصاں پیر کامل کاملاں را رہنما”کہتے ہوئے رخصت ہوئے یہ حجرہ اعتکاف آج بھی موجود ہے۔ حضرت علی ہجویری جن کو دنیا داتا گنج بخش کے نام سے پکارتی اور یاد کرتی ہے کئی برس مختلف ممالک کی سیاحت فریضہ حج ادا کرنے اور تحصیل علم کے بعد لاہور تشریف لائے تو لاہور ہی کے ہورہے۔ اور اور اگر کبھی مختصر وقت کے لئے کہیں گئے بھی تو پھر لوٹ کر لاہور واپس آئے اور لاہور ہی ان کا مدفن بنا آج لاہور کو داتا کی نگری کہا جاتا ہے وہ لاہور سے نہیں لاہور ان کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ مسلم روایات کے مطابق سب سے قدیم میلہ حضرت داتا گنج بخشؒ کے عرس سے منسوب ہے اور ہر سال عرس کی تین روزہ تقریبات 18، 19، 20 صفر کو منائی جاتی ہیں۔ حضرت داتا گنج بخشؒ کو اس دنیا سے رخصت ہوئے کئی صدیاں بیت چکی ہیں لیکن ان کا چراغ آج بھی روشن ہے ان کی حکومت دلوں پر قائم ہے ہر روز سینکڑوں کیا ہزاروں افراد ایصال ثواب کے لئے اور اپنی حاجتوں کے لئے مزار مبارک پر حاضری دیتے ہیں بے شمار حکمران آئے اور وہ گوشہ گمنامی میں ڈوب گئے لیکن ہجویر سے آنے والے علی ہجویر ی رحمۃ اللہ علیہ کی آواز آج بھی گونج رہی ہے ان کی حکومت آج بھی قائم ہے ان کے اقتدار کو زوال نہیں آیا۔
سید ہجویرؒ مخدوم رمم
مرقداو پیر سنجرؒ راحرم