اسلام آباد: سینیٹ میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایم) کو متعارف کرانے پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان لفظوں کی جنگ جاری رہی جہاں حکومتی اراکین نے شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے ای وی ایم کو ناگزیر جبکہ اپوزیشن نے انہیں دھاندلی کی مشینیں قرار دیا۔
وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے اپوزیشن کو الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں اور سینیٹ انتخابات میں اوپن بیلٹ کے معاملے میں کڑی تنقید کی۔
انتخابی عمل میں زیادہ شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے کوئی تجاویز دینے میں ناکامی پر اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ای وی ایم آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔
انہوں نے سینیٹ کے ایک وفد دورہ روس کا حوالہ دیتے ہوئے کہ انہوں نے انتخابات میں ٹیکنالوجی استعمال کی ہے اور وفد نے اس کا مشاہدہ بھی کیا۔
وزیر مملکت نے وزیر اعظم عمران خان کی افغان پالیسی کی تعریف کی اور کہا کہ انہوں نے واضح کردیا کہ پاکستان جنگ میں نہیں بلکہ امن میں شراکت دار ہوگا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ملک میں زرعی ترقی ہے اور کہا کہ رواں برس گندم کی فضل نے نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔
فوری جواب میں سینیٹ میں پیپلز پارٹی کی پارلیمانی لیڈر شیری رحمٰن نے الزام عائد کیا کہ حکومت پری پول دھاندلی کے لیے بنیادیں تیار کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
انہوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) پر وزرا کے حملے پر تنقید کی اور افسوس کا اظہار کیا کہ ای وی ایم پر حقیقت پسندانہ موقف اختیار کرنے کے بعد کمیشن کو دھمکیاں بھی دی گئیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک خوفناک معاشی بحران کا سامنا ہے جس سے خوراک کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں لیکن یہاں ہمیں بتایا گیا کہ پاکستانی زراعت کی پیداوارعروج پر ہے۔
شیریں رحمٰن نے کہا کہ اوسط شہری کے لیے کوئی راحت نہیں ہے جس کی آمدنی خطرناک حد تک سکڑ گئی ہے جبکہ حکومت صرف ایک ’بیانیہ‘ پر مبنی جنگ پر توجہ مرکوز کیے رکھی ہے۔
رہنما پیپلز پارٹی نے کہا کہ ملکی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ گندم 383 ڈالر فی ٹن کے حساب سے درآمد کی جا رہی ہے، ’ایک ایسے ملک کے لیے جو کبھی پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران گندم کی پیداوار میں خود کفیل تھا، یہ شرم کی بات ہے کہ ہم بہت زیادہ نرخوں پر درآمد کر رہے ہیں‘۔
افغانستان کے بارے میں مشترکہ اجلاس کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے شیریں رحمٰن نے کہا کہ افغانستان میں ایک انسانی تباہی پھیل رہی ہے، پاکستان کی حکمت عملی کیا ہے؟ ایک متفقہ اپوزیشن پاکستان کو ان چیلنجوں سے مؤثر طریقے سے نمٹنے میں مدد دے سکتی ہے جو افغانستان میں ابھرتی ہوئی صورتحال کی وجہ سے پیدا ہو سکتے ہیں کیونکہ افغانستان میں جو کچھ ہوتا ہے اس کے اثرات افغانستان میں محدود نہیں رہتے بلکہ پاکستان پر بھی پڑتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس معاملے پر برطانوی پارلیمنٹ کا فوری اجلاس ہوا۔