دوسری عالمی جنگ کے بعد انجیلا مرکل کی پارٹی کی انتخابات میں بدترین کارکردگی

اتوار کو ہونے والے عام انتخابات کے متوقع نتائج کے مطابق جرمنی کی سوشل ڈیموکریٹس (ایس پی ڈی) پارٹی کم مارجن سے آگے رہی جس کے باعث اسے 2005 کے بعد پہلی بار حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے اور انجیلا مرکل کی 16 سالہ قدامت پسند حکومت ختم کرنے کے موقع ملا ہے۔

براڈکاسٹر اے آر ڈی کے نشر کردہ متوقع نتائج کے مطابق مرکزی بائیں بازو کی جماعت سوشل ڈیموکریکٹس 25.5 فیصد ووٹس حاصل کرکے مرکل کی سی ڈی یو / سی ایس یو قدامت پسند بلاک سے آگے رہی جس نے 24.5 فیصد ووٹ حاصل کیے، تاہم دونوں گروپوں کا ماننا ہے کہ وہ آئندہ اقتدار سنبھالیں گے۔

انتخابی نتائج کے مطابق یہ سی ڈی یو/سی ایس یو کی دوسری عالمی جنگ کے بعد کسی وفاقی انتخابات میں بدترین کارکردگی ہے، اس کا مطلب ہے کہ نئی حکومت کے اقتدار سنبھالنے سے قبل طویل مذاکرات کیے جائیں گے جس میں ممکنہ طور پر گرینز اور آزاد خیال فری ڈیموکریٹس (ایف ڈی پی) کو شامل کیا جائے گا۔

سوشل ڈیموکریٹس کے چانسلر کے امیدوار اولاف شولز نے نتائج پر مسرت کا اظہار کرنے والے حامیوں کو بتایا کہ ‘یہ یقینی ہے کہ یہ ایک طویل انتخابی شام ہونے جارہی ہے’۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘ یہ بھی یقینی ہے کہ متعدد لوگوں نے ایس پی ڈی کو منتخب کیا کیونکہ وہ جرمنی کے اگلے چانسلر کے طور پر اولاف شولز کا نام لینا چاہتے ہیں’۔

63 سالہ اولاف شولز دوسری عالمی جنگ کے بعد ایس پی ڈی کے چوتھے چانسلر ہوں گے، اس سے قبل جماعت کے ویلی برانٹ، ہیلمٹ شمٹ اور گرہارڈ شیروئیڈر جرمنی کے چانسلر رہ چکے ہیں۔

انجیلا مرکل کی پرتعجب ‘عظیم اتحاد’ کی حکومت میں وزیر خزانہ رہنے والے اولاف شولز ہیمبرگ کے سابق میئر بھی رہ چکے ہیں، جہاں انجیلا مرکل اور ہیلمٹ شمٹ دونوں پیدا ہوئے۔

اولاف شول کے مرکزی حریف و کنزویٹو پارٹی کے چانسلر کے امیدوار آرمن لاشیٹ کا کہنا تھا کہ انتخابات میں کانٹے کا مقابلہ ہوا اور اشارہ دیا کہ کنزویٹو ابھی شکست تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔

60 سالہ آرمن لاشیٹ نے مغلوب حامیوں سے کہا کہ ‘ہمارے پاس حتمی نتائج یا نمبرز نہیں ہیں، ہم کنزویٹو پارٹی کی قیادت میں حکومت بنانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے کیونکہ جرمنی کو مستقبل پر نظر رکھنے والی حکومت کی ضرورت ہے جو ملک کو جدید بنائے۔

توجہ اب غیر رسمی بات چیت کی جانب منتقل ہوگی جس کے بعد مزید رسمی مذاکرات کیے جائیں گے جن میں مہینوں لگ سکتے ہیں، جس دوران عبوری حکومت میں انجیلا مرکل انچارج ہوں گی۔

سیاسی رسک کنسلٹسی ‘ٹینیو’ کے کارسٹین نیکل نے کہا کہ ‘یہ متعدد کھلاڑیوں کے درمیان حیرت انگیز سودا ہوگا اور اس میں ممکنہ طور پر کئی آپشنز نظر آرہے ہیں، جبکہ مذاکرات میں کچھ وقت لگ سکتا ہے’۔

انجیلا مرکل نے انتخابات کے بعد سبکدوش ہونے کا فیصلہ ہے، تاکہ یورپ کی سب سے بڑی معیشت کے مستقبل کے تعین کے لیے انتخابات دور بدلنے کا ایونٹ ثابت ہو۔

وہ 2005 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے یورپ کی مضبوط رہنما کے طور پر کھڑی رہیں جب جارج بُش، امریکا کے صدر تھے اور فرانس کے صدر جیکس شیراک اور برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر تھے۔

گرینز کی سینئر قانون ساز کیٹرین گورینگ ایکارٹ کا کہنا تھا کہ ‘یہ دہائیوں میں سے ایک عام انتخاب تھا’۔

مقامی توجہ کا مرکز رہنے والی انتخابی مہم کے بعد یورپ میں برلن کے اتحادیوں اور دیگر ممالک کو یہ دیکھنے کے لیے کئی ماہ انتظار کرنا پڑ سکتا ہے کہ نئی جرمن حکومت، خارجی معاملات پر کام کرنے کے لیے تیار ہے یا نہیں۔