اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے متفقہ طور پر اسلام آباد میں بچوں پرجسمانی سزاؤں کی ممانعت کا بل2021 کی منظوری دے دی جس کے تحت کسی بھی شخص یا نگہداشت کے ادارے کی جانب سے بچوں کے خلاف جسمانی سزا قابل گرفت عمل ہوگا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کا اجلاس قائم مقام چیئرپرسن سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کی صدارت میں ہوا۔
پرائیویٹ ممبر کا بل: ’اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری پرویبیشن کارپورل بل 2021‘ جسے چیئرمین سینیٹر ولید اقبال نے پیش کیا اور سینیٹر سعدیہ عباسی نے 27 ستمبر کو سینیٹ میں پیش کیا تھا اس پر تفصیل سے غور کیا گیا۔
سینیٹ 2012 میں قواعد و ضوابط کے طریقہ کار کے تحت کمیٹی نے سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کو موجودہ اجلاس کے لیے چیئرمین کے طور پر کام کرنے کا انتخاب کیا۔
اس سے قبل یہ بل سینیٹر سعدیہ عباسی نے پیش کیا تھا جسے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے پاس غور کے لیے بھیجا گیا تھا۔
کمیٹی نے مختلف مذہبی اور غیر مذہبی گروہوں کے ساتھ اتفاق رائے کے بعد بل کا تفصیلی جائزہ لیا اور ضروری ترامیم کیں۔
تاہم مقررہ 90 دن کا وقت ختم ہونے کی وجہ سے بل منظور نہیں ہوسکا۔
بل سینیٹ میں نظر ثانی شدہ اور ترمیم شدہ شکل میں پیش کیا گیا اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کو ایک دن میں اپنی رپورٹ پیش کرنے کے لیے منتقل کر دیا گیا۔
کمیٹی نے منگل کو سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کی سربراہی میں اپنی شقوں پر تفصیلی غور کیا اور معمولی تبدیلیوں کے ساتھ دستاویز کو شق وار پڑھنے کے بعد بل کو متفقہ طور پر منظور کیا۔
بل میں کسی بھی شخص یا نگہداشت کے ادارے کی جانب سے بچوں کے خلاف جسمانی سزا کی ممانعت کی گئی ہے، جس میں تمام قسم کے تعلیمی ادارے بشمول رسمی اور غیر رسمی اور مذہبی دونوں سرکاری اور نجی، بچوں کی دیکھ بھال کے ادارے بھی شامل ہیں۔
اس بل میں بچوں کی دیکھ بھال کرنے والے اداروں، تعلیمی اداروں اور جائے کار پر بچہ ملازمین پر جسمانی تشدد کی صورت میں سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں جس میں ملازمت سے برطرفی بھی شامل ہے۔
بل کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ ایک بچے کو یہ حق حاصل ہے کہ اس کی شخصیت اور انفرادیت کا احترام کیا جائے اور اسے جسمانی سزا کا نشانہ نہ بنایا جائے۔
اراکین نے مشاہدہ کیا کہ دنیا بھر کے ماہرین تعلیم، ماہرین نفسیات اور معالجین کے مطابق بچوں کی جسمانی سزا ذہنی علمی نشوونما پر منفی اثر ڈالتی ہے۔
ماہرین کا اس بات پر اتفاق تھا کہ جسمانی سزا بچے کی صحت بالخصوص ان کے رویے اور جذباتی تندرستی پر منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔
ارکان کا موقف یہ تھا کہ یہ صرف اسلام آباد تک محدود نہیں ہے بلکہ صوبوں میں بھی ہے، صوبائی حکومتوں کے لیے قانون سازی پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔
وزارت انسانی حقوق انعام اللہ خان کی جانبسے آگاہ کیا گیا کہ بل کے طریقوں میں کچھ خامیاں ہیں جس کی وجہ سے اسے صوبوں میں نفاذ کرنے میں رکاوٹ ہوں گی۔
تاہم وزارت صوبوں میں بل کے اطلاق کے لیے کوشش کرے گی۔
سیکریٹری نے مزید کہا کہ ملک میں کل 8 ہزار مدارس ہیں جن میں سے 35 فیصد غیر رجسٹرڈ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس بل کا مقصد اقوام متحدہ کے کنونشن آن دی چائلڈ رائٹس (1989) کے مطابق کام کرنا تھا جس کی پاکستان نے توثیق کی جس میں درج ہے کہ جسمانی سزا پر قانونی طور پر پابندی لگائی جائے اور اسے جرم قرار دیا جائے۔