اب روشنی بنی، جلے ہوئے زخموں کا نیا مرہم
میری لینڈ، امریکا: اگرچہ گزشتہ نصف صدی سے روشنی کو زخم مندمل کرنے میں استعمال کیا جاتا رہا ہے لیکن اب اس کی اہمیت کے نئے ثبوت سامنے آئے ہیں۔
ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ گہرے زخموں اور ناسور پر روشنی ڈالنے سے خاص پروٹین کو تحریک ملتی ہے جو زخم بھرنے کے عمل کو تیزکرتے ہیں۔ اس طرح ’فوٹوبایوموڈیولیشن‘ کی بدولت خلوی افزائش تیز ہوتی ہے تاہم اس طریقہ علاج کو کئی حوالوں سے تنقید کا سامنا بھی رہا ہے۔ 2012 میں اس طریقہ علاج کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے لیکن اس وقت کئی اعتراضات بھی کئے گئے تھے۔
لیکن اب سائنٹفک رپورٹس نامی جرنل میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں پاکستانی ماہراور دیگر سائنسدانوں کی تحریر کردہ ایک رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں انہوں نے لائٹ تھراپی کو کئی طرح سے آزمایا ہے۔
’لائٹ تھراپی سے انسانی جلد میں ہونے والی بایوکیمیکل تبدلیوں کو اب تک نہیں سمجھا گیا تھا۔ اس میں روشنی کی شدت، وقت، طولِ موج، قوت اور کثافت وغیرہ کو اچھی طرح جانچا گیا ہے۔ اگر مختلف زخموں پر مختلف طریقہ اختیار کیا جائے تو اس سے منفی بلکہ نقصاندہ نتائج بھی برآمد ہوسکتے ہیں،‘ رپورٹ میں کہا گیا ہے۔
لائٹ تھراپی کے لیے کئی جانوروں اور خلوی ماڈلوں کو آزمایا گیا ہے جس کی تفصیل جرنل سائنٹفک رپورٹس میں شائع ہوئی ہے۔ اس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ٹی جی ایف بی ٹا ون پروٹین پر لائٹ تھراپی کے اثرات کا جائزہ لیا جائے۔ یہ پروٹین خلوی (سیلولر) سطح پر کئی اہم کام انجام دیتا ہے اور خلیات کو بڑھاوا دیتا ہے۔ ایک تجربے میں لائٹ تھراپی کے اثرات کو نو دن تک نوٹ کیا گیا ہے۔
تحقیق سے معلوم ہوا کہ ہلکی شدت کی لیزر سے زخم کی اندرونی سوزش و جلن (انفلیمیشن) کو کم کیا جاسکتا ہے اور اس طرح بافتوں کی افزائش میں مدد ملتی ہے۔ اس عمل میں 810 نینومیٹر طولِ موج والی روشنی کے چھوٹے جھماکے زخم پر ڈالے جاتے گئے۔ اس سے جلد پر درجہ حرارت 45 درجہ سینٹی گریڈ سے اوپر نہ ہوا اور قابلِ برداشت حد میں تھا۔