سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواست پر سماعت سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کی۔
وکیل فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ پی ٹی آئی کے آزاد جیتے ہوئے اراکین اسمبلی نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا 7 امیدوار تاحال آزاد حیثیت میں قومی اسمبلی کا حصہ ہیں؟
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے پوچھا کیا پی ٹی آئی ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے؟ جس پر فیصل صدیقی نے بتایا کہ پی ٹی آئی ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا آزاد اراکین کو کتنے دن میں کسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا ہوتی ہے؟ جس پر وکیل فیصل صدیقی نے بتایا آزاد اراکین قومی اسمبلی کو 3 روز میں کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا ہوتی ہے۔
سیاسی جماعت انتخابات میں حصہ لے کر پارلیمانی جماعت بن سکتی ہے: وکیل فیصل صدیقی
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے استفسار کیا اگر کسی سیاسی جماعت کے پاس انتخابی نشان نہیں ہے تو کیا اس کے امیدوار نمائندگی کے حق سے محروم ہو جائیں گے؟ جس پر فیصل صدیقی کا جواب تھا کوئی سیاسی جماعت انتخابات میں حصہ لے کر پارلیمانی جماعت بن سکتی ہے، دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی سیاسی جماعت انتخابات میں حصہ نہ لے اور آزاد جیتے ہوئے اراکین اس جماعت میں شمولیت اختیار کر لیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا سیاسی جماعتوں کے درمیان مخصوص نشستوں کی تقسیم کس فارمولے کے تحت ہوتی ہے، سیاسی جماعت کیا اپنی جیتی ہوئی سیٹوں کے مطابق مخصوص نشستیں لےگی یا زیادہ بھی لے سکتی ہے؟
وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کوئی سیاسی جماعت اپنے تناسب سے زیادہ کسی صورت میں مخصوص نشستیں نہیں لے سکتی۔
وفاق اور خواتین ارکان اسمبلی کا بینچ پر اعتراض مسترد
مخصوص نشستوں پر نامزد خواتین ارکان اسمبلی کی جانب سے بینچ پر اعتراض اٹھایا گیا اور وکیل خواتین ارکان کا کہنا تھا یہ آئین کے آرٹیکل 51 کی تشریح کا مقدمہ ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت کیس 5 رکنی بینچ سن سکتا ہے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے بھی 3 رکنی بینچ پر اعتراض کر دیا گیا اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ اپیلیں لارجر بینچ ہی سن سکتا ہے۔
سپریم کورٹ نے بینچ پر اعتراض مسترد کر دیا اور جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ابھی تو ابتدائی سماعت ہے، اگر اپیلیں قابل سماعت قرار پائیں تو کوئی بھی بینچ سن لے گا، اس اسٹیج پر تو 2 رکنی بینچ بھی سماعت کر سکتا ہے۔
قانون میں کہاں لکھا ہے کہ انتخاباتی نشان نہ ملنے پر وہ سیاسی جماعت الیکشن نہیں لڑ سکتی؟ جسٹس اطہر من اللہ
جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا سیاسی جماعت کو جیتی ہوئی نشستوں کے تناسب سے مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں جبکہ جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا قانون میں کہاں لکھا ہےکہ بچی ہوئی نشتسیں انہی سیاسی جماعتوں میں تقسیم کی جائیں گی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ہمیں پبلک مینڈیٹ کی حفاظت کرنی ہے، اصل مسئلہ پبلک مینڈیٹ کا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا قانون میں کہاں لکھا ہے کہ انتخاباتی نشان نہ ملنے پر وہ سیاسی جماعت الیکشن نہیں لڑ سکتی؟
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا یہی سوال لےکر الیکشن سے قبل میں عدالت گیا تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ایک بات تو طے ہے جس جماعت کی جتنی نمائندگی ہے اتنی ہی مخصوص نشستیں ملیں گی جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا یہ کیسے ممکن ہےکہ کسی کا مینڈیٹ کسی اور کو دے دیا جائے؟
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے پہلی بار ایسا ہوا کہ ایک بڑی سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کر دیا گیا۔
آئین کی اسکیم ہی یہ ہے کہ مینڈیٹ کا احترام کیا جائے: جسٹس منصور علی شاہ
سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت اور اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے الیکشن کمیشن سے کیس کا ریکارڈ فوری طلب کر لیا جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا اس کیس کو روزانہ کی بنیاد پر سن فیصلہ کرنا چاہتے ہیں، آئین کی اسکیم ہی یہ ہے کہ مینڈیٹ کا احترام کیا جائے۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا ہمارے لیے کوئی سیاسی جماعت متعلقہ نہیں، دیکھنا یہ ہےکہ عوام کے مینڈیٹ کی اس میں جھلک ہے یا نہیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا سنی اتحاد کونسل نے وفاق کو فریق ہی نہیں بنایا، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا وفاق اگر پارٹی نہیں بھی تب بھی نوٹس کر رہے ہیں، اٹارنی جنرل کو بلائیں، حکام الیکشن کمیشن اور اٹارنی جنرل ساڑھے 11 بجے پیش ہوں۔
مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کی معطلی صرف اضافی نشستوں کی حد تک ہوگی: عدالت
وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کسی امیدوار نے سیاسی جماعت جوائن نہیں کی تھی، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کیا آزاد امیدواروں کی نشستیں دیگر جماعتوں کو بانٹی جا سکتی ہیں؟ جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا اگر مزید کچھ نشستیں بچ جائیں ان کا کیا کرنا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ایک سوال ہےکیا بانٹی گئی نشستیں دوبارہ بانٹی جا سکتی ہیں، دوسرا یہ کہ مخصوص نشستیں اس لیے بانٹی گئیں کہ ہاؤس پورا ہو، اس میں کہاں غلطی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ پارلیمانی پارٹی تسلیم کرکے مخصوص نشستوں سے کیسے محروم رکھا گیا، آئین پاکستان کا آغاز بھی ایسےہی ہوتا ہےکہ عوامی امنگوں کے مطابق امور انجام دیے جائیں گے۔
سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کر تے ہوئے کہا کہ اپیلیں سماعت کے لیے منظور کر رہے ہیں، فیصلے کی معطلی صرف اضافی نشستوں کی حد تک ہوگی، 3 جون سے کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہو گی۔