ڈان لیکس اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ہماری اسٹیبلشمنٹ "100 جوتے اور 100 پیاز“۔

یہ کہانی تب شروع ہوتی ہے جب 2016 میں 28 اکتوبر کو رانا محمد افضل خان اورسینیٹر عائشہ رضا فاروق مسلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کےلئے فرانس کا دورہ کرتے ہیں ۔ رانا محمد افضل خان اورسینیٹر عائشہ رضا فاروق فرانسیسی سینیٹرز، فرانس کی وزارت خارجہ کے اعلیٰ حکام اورمقامی تھنک ٹینکس سے ملاقاتیں کرتے ہیں یہ ملاقاتیں 29 اور 30 ستمبر 2016 کو ہوتی ہیں ۔ سینیٹر عائشہ رضا فاروق اوررانا محمد افضل خان وزیراعظم کی جانب سے دنیا کے اہم دارالحکومتوں میں مسئلہ کشمیرکو اجاگرکرنے کےلئے مقرر کئے گئے 22 خصوصی نمائندوں میں شامل تھے ۔ وہ مسلہ کشمیر کے حوالے سے فرانس کو اپنے موقف سے اگاہ کرنے کے لیے اتے ہیں لیکن فرانسیسی حکومت کی طرف سے انکو کچھ دستاویزات دکھائی جاتی ہیں ۔ جس میں پاکستان میں مذھبی انتہا پسندوں کے خلاف پاکستانی حکومت کے اقدمات پر عدم اعتماد کا اظہار ،حکومت اور مذہبی انتہا پسندوں کے درمیان تعلق پر سوال اٹھائے جاتے ہیں ۔ اور کہا جاتا ہے کہ پاکستان اگر ان انتہا پسندوں کے خلاف کار روائی نہیں کرتا تو پاکستان کو سخت پاپندیوں کا سامنا کرنا پڑھ سکتا ہے ۔ رانا محمد افضل خان پاکستان واپس جاتے ہی ان تمام صورتحال سے وزیراعظم کو اگاہ کرتے ہیں اور سوال اٹھاتے ہیں کہ مذھبی انتہا پسند کونسے سونے کے انڈے دے رہے ہیں جن کی وجہ سے دنیا بھر میں ہم جواب دہ ہیں ہم مجرم ہیں، کوئی ہماری بات سننے کو تیار نہیں ہے ۔ جن کی وجہ سے پاکستان عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہونے کا حدشہ ہے۔ کچھ ہی دنوں بعد 5 اکتوبر کو وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والے ایک اہم اجلاس میں غیر ریاستی عناصر اور کالعدم تنظیموں کے خلاف کار روائی کے حوالے سے وزیراعظم اپنے تحفظات کا اظھار کرتا ہے۔ نواز شریف حکومت فوجی اسٹیبلشمنٹ سے اس اجلاس میں جہادی تنظیموں کے حوالے سے بین القوامی تحفظات پر بات کرتا ہے اور پاکستان پر عالمی پابندیوں کے حدشات سے اگاہ کیا جاتا ہے ۔ اگلے دن ہی 6 اکتوبر کو انگریزی اخبار ڈان میں سیرل المائڈہ وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والے اس اہم اجلاس کے حوالے سے خبر دیتا ہے ۔ اس خبر میں غیر ریاستی عناصر یا کالعدم تنظیموں کے معاملے پر فوج اور سول حکومت میں اختلاف کا ذکر کیا جاتا ہے ڈان سے وابستہ سینئر صحافی سرل المیڈا نے اپنی سٹوری میں یہ بڑا انکشاف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ گزشتہ روز ہونے والے حکومتی اور فوجی قیادت کے اجلاس میں لیگی حکومت نے فوجی اسٹیبلشمنٹ پر واضح کردیا ہے کہ پاکستان پر عالمی برادری کا بہت زیادہ دباؤ ہے اس لیے آپ نیشنل ایکشن پلان کے تحت جہادی تنظیموں کی سرپرستی ختم کریں ورنہ پاکستان پر عالمی پابندیاں عائد ہو جائیں گی۔ یہ خبر جسے ’ڈان لیکس‘ کا نام دیا جاتا ہے ۔ اس خبر کے بعد اگلے ہی روز اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ پر وزیراعظم آفس کی جانب سے اس خبر کو من گھڑت اور قومی سلامتی کے منافی قرار دےکراظہار لاتعلقی کیا گیا اور اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے آئی ایس آئی چیف کے ہمراہ 10 اکتوبر کو وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کرکے اس خبر کے قومی سلامتی پر اثرات کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہیں ۔ اور اس نقطے پر سوال اٹھاتے ہیں کہ وزیر اعظم ہاؤس میں منعقد ہونے والے ایک نہایت حساس اور خفیہ اجلاس کی خبر باہر کیسے نکلی۔ حکومت اور فوج دونوں نے اس خبر کو من گھڑت اور بے بنیاد قرار دیتے ہوئے اس کے ذمہ داران کا تعین کر کے سخت کارروائی کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔ سرل المیڈا کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا جاتا ہے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کہتے ہیں کہ اس رپورٹ کے ذریعے ملک کی قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے، اس لیے اس کیس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ اس کہانی کی بنیاد پر بھارتی میڈیا دنیا کو بتا رہا ہے کہ بھارت پاکستان پرغیر ریاستی عناصر کے ساتھ ملوث ہونے کا صحیح الزام عائد کر رہا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے قومی سلامتی سے متعلق متنازعہ خبر کی اشاعت کی شفاف تحقیقات کے لیے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیتا ہے جس کا باقاعدہ اعلامیہ 29 اکتوبر کو جاری کیا جاتا ہے ۔ حکومت قومی سلامتی کے منافی خبر کی اشاعت کی تحقیقات کے لیے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں سات رکنی کمیٹی تشکیل دی جو خبر کی اشاعت کے ذمہ داروں کا تعین کر کے ان کے خلاف تادیبی کارروائی کے لیے سفارشات مرتب کر کے وزارت داخلہ کے حوالے کرے گی جسے وزیرداخلہ وزیراعظم کو پیش کریں گے۔ وزارتِ داخلہ کے نوٹیفیکیشن کے مطابق سات رکنی کمیٹی کی سربراہی ریٹائرڈ جج جسٹس عامر رضا خان کو سونپی گئی جبکہ دیگر ممبران میں سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ طاہر شہباز، محتسبِ اعلیٰ پنجاب نجم سعید اور وفاقی تحقیقاتی ادارے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عثمان انور کے علاوہ آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلیجنس اور انٹیلیجنس بیورو کا بھی ایک ایک نمائندہ شامل ہوگا۔ وزارتِ داخلہ کے نوٹیفیکیشن کے مطابق سات رکنی کمیٹی کی سربراہی ریٹائرڈ جج جسٹس عامر رضا خان کو سونپی گئی جبکہ دیگر ممبران میں سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ طاہر شہباز، محتسبِ اعلیٰ پنجاب نجم سعید اور وفاقی تحقیقاتی ادارے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عثمان انور کے علاوہ آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلیجنس اور انٹیلیجنس بیورو کا بھی ایک ایک نمائندہ شامل تھا ۔ ریٹائرڈ جج عامر رضا خان کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے پانچ ماہ کی طویل محنت کے بعد قومی سلامتی سے متعلق خبر کی اشاعت کے ذمہ داروں کا تعین کر کے اپنی سفارشات 26 اپریل 2017 کو وزارت داخلہ کو بھیجوا دیتی ہے۔ پاک فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری کردہ اپنے پیغام میں ڈان لیکس سفارشات پر وزیراعظم کے اعلامیے کو نامکمل قرار دیتے ہوئے اس کو مسترد کر دیتا ہے ۔ ڈی جی آئی ایس پی آر آصف غفور نے اپنی ٹوئٹ میں مزید لکھتے ہیں کہ وزیراعظم کا عملدر آمد سے متعلق اعلامیہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی سفارشات سے ہم آہنگ نہیں ہے اور نہ ہی اس رپورٹ کی سفارشات پر من و عن عمل درآمد کیا گیا ہے اس لیے پاک فوج اس اعلامیہ کو مسترد کرتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ حکومت پر ڈان لیکس کے حوالے سے اپنے پریشر میں اضافہ کرتی چلی جاتی ہے اور انتہا پسندوں کے خلاف بین القوامی مطالبات کو نظر انداز کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس پاکستان کو جون 2018 میں گرے لسٹ میں شامل کر لیتا ہے ۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس پاکستان کو ایک لمبی فہرست دیتا ہے جس پر عمل درآمد کا کہا جاتا ہے ۔ ایف اے ٹی ایف کا اجلاس ہر چار مہینے بعد ہوتا ہے جون 2018 کے پاکستان کا گرے لسٹ میں انے کے بعد ہر اجلاس میں پاکستان کی طرف سے کئے گئے کچھ اقدامات کو تسلی بخش قرار دے کر مزید نکات پر کام کا کہا جاتا ہے یہی سب کچھ جون 2018 سے ہو رہا ہے ۔ ایف اے ٹی ایف کے پریشر کی وجہ سے اب ان مذھبی شدت پسند گروپوں پر پاکستانی میں پاپندی بھی لگ گئی ہے ۔ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے مالی وسائل کی روک تھام کے حوالے سے حکومت کو قوانین بھی بنانے پڑے ۔ پاکستان کی پارلیمنٹ کے ایوان بالا سینیٹ نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی سفارشات پر مبنی دو قانونی بل کثرتِ رائے سے منظورکئے ۔ پاکستان نے کالعدم تنظیموں کے اثاثے منجمند کئے اور اِن تنظیموں سے وابستہ کئی سرکردہ افراد کے خلاف بھی سخت کارروائیاں کی گئی بہت سے گرفتاریاں عمل میں آئی ۔ عدالتوں کی طرف سے ان لوگوں کو سزائیں سنائی گئی ۔ آج حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ملکر ایف اے ٹی ایف کے مطالبے پر وہی تمام اقدامات اٹھا رہی ہے جن کا مطالبہ چند سال قبل سابقہ حکومت نے اسٹیبلشمنٹ سے کیا تھا۔ ڈان لیکس پر غضب ناک ہونے والے اب ایف اے ٹی ایف کی شرائط پوری کرکے دراصل ڈان لیکس پر ہی عملدرآمد کر رہے ہیں۔ ایک تھنک ٹینک ادارے نے 2008ء سے 2019ء تک ہونے والے نقصانات پر مبنی رپورٹ جاری کی ہے ، جس میں بتایا گیا ہے کہ ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ کی وجہ سے پاکستانی معیشت شدید مشکلات کا شکار ہے، کڑی شرائط کے باعث 12 سال کے دوران 38 ارب ڈالر کا ممکنہ نقصان اٹھانا پڑا۔ اگر ڈان لیکس کی ایشو پر اس وقت اسٹیبلشمنٹ حکومتی اور غیر ملکی تحفظات پر عملی اقدامات کرتی تو معاشی مسائل اور بحران سے بچا جا سکتا تھا ۔ اس حوالے سے مجھے پنجابی کا ایک محاورہ یاد آ رہا ہے آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ ”100 جوتے اور 100 پیاز“۔ اس محاورے کی اصلیت کچھ یوں ہے کہ کسی جگہ کسی جرگے نے مجرم کو سزا سنائی کہ اُسے یا تو 100 جوتے کھانے پڑیں گے یا 100 پیاز۔ مجرم نے کہا کہ وہ سو پیاز کھائے گا۔ جب سزا پر عمل درآمد شروع ہوا تو مجرم نے ارادہ بدل لیا اور جوتے کھانے کی فرمائش کر ڈالی۔ کہتے ہیں کہ بار بار ارادہ بدلنے پر آخری وقت تک مذکورہ مجرم کو سوپیاز بھی کھانے پڑے اور سو جوتے بھی۔ کچھ اسی طرح کی کیفیت آج کل ہماری اسٹیبلشمنٹ کی بھی ہے ۔