ایف آئی اے کو سائبر کرائم قوانین کا غلط استعمال روکنے کی ہدایت

اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) سے سائبر کرائم قوانین کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے معیاری طریقہ کار (ایس او پیز) پر عمل درآمد کی رپورٹ طلب کی اور ایجنسی کو ہدایت کی کہ وہ معاملہ پر صحافیوں کی نمائندہ تنظیموں سے مشاورت کرے۔

یہ ہدایت اس وقت سامنے آئے جب ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایف آئی اے کے سائبر کرائمز ونگ (سی سی ڈبلیو) کی جانب سے شہریوں بالخصوص صحافیوں کو جاری نوٹس کے خلاف کیس کی سماعت کا دوبارہ آغاز کیا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ سی سی ڈبلیو کو الیکٹرانک جرائم کی روک تھام ایکٹ (پیکا) کے تحت 22 ہزار 877 شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 30 شکایات صحافیوں کے خلاف دائر کی گئی تھیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے تحقیقاتی ایجنسی کو تجویز دی کہ وہ اس تاثر کو ختم کرے کہ صحافیوں کو حکومت اور اداروں پر تنقید کی وجہ سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ نفرت انگیز مواد اپ لوڈ کرنے کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کسی کو تنقید سے نہیں ڈرنا چاہیے کیونکہ یہ احتساب کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے، اگر کوئی سوشل میڈیا پر کسی مواد سے اپنی تذلیل محسوس کرتا ہے تو وہ ہتک عزت کا مقدمہ دائر کر سکتا ہے یا اپنی شکایت کے ازالے کے لیے دیگر قانونی راستے کا انتخاب کر سکتا ہے’۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ایف آئی اے سے کہا کہ وہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) اور دیگر اسٹیک ہولڈرز سے ایس او پیز پر عمل درآمد کروائے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ پیکا کا غلط استعمال نہ ہو۔

ایک صحافی کے خلاف ایف آئی اے کی کارروائی کا حوالہ دیتے ہوئے چیف جسٹس نے نشاندہی کی کہ سی سی ڈبلیو نے انہیں طلب کیا اور ان کی معلومات کے ذرائع کے بارے میں دریافت کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘کیا یہ پولیس ریاست ہے؟ یہ دنیا میں کہیں بھی نہیں ہوتا’۔

جسٹس اطہر من اللہ نے پاکستان تحریک انصاف کے قانون ساز کنول شوزب کے کیس کا بھی حوالہ دیا جس میں ایف آئی اے نے ایک شہری کو معاملے کی نوعیت کو سمجھے بغیر ہی طلب کرلیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ایسے اہلکاروں کو سزا دی جانی چاہیے تھی۔

عدالت نے سماعت رجسٹرار آفس کی جانب سے تاریخ مقرر کیے جانے تک کے لیے ملتوی کردی۔