یہ پروٹین پسینے میں چکنائی خارج کرکے وزن بھی کم کرسکتا ہے
پنسلوانیا: امریکی سائنسدانوں نے ’ٹی ایس ایل پی‘ کہلانے والے ایک پروٹین کے بارے میں دریافت کیا ہے کہ وہ پسینے کے ذریعے جسم سے چکنائی خارج کرکے وزن کرنے میں بھی مدد کرتا ہے۔
یونیورسٹی آف پنسلوانیا میں ماہرین کی یہ ٹیم ذیابیطس کے علاج پر تحقیق کر رہی ہے جس میں امنیاتی نظام (امیون سسٹم) کے ایک پروٹین ’تھائیمک اسٹارمل لمفو پوئیٹن‘ (TSLP) کا مطالعہ کیا جارہا ہے۔
ویسے تو ’ٹی ایس ایل پی‘ کا تعلق دمے اور کئی طرح کی الرجی سے ثابت ہوچکا تھا لیکن بعض حالیہ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ یہی پروٹین جسم میں توانائی کے استعمال یعنی میٹابولزم میں بھی باقاعدگی لاتا ہے۔
اسی بناء پر خیال پیدا ہوا کہ شاید یہ پروٹین ٹائپ 2 ذیابیطس کے علاج میں بھی مدد کرسکے گا۔ اسی مفروضے کو آزمانے کےلیے ڈاکٹر تاکو کامبایاشی اور ان کے ساتھیوں نے مزید تحقیق شروع کردی۔
چوہوں پر اس تحقیق سے جہاں یہ تصدیق ہوئی کہ ’ٹی ایس ایل پی‘ واقعتاً خون میں شکر کی مقدار کنٹرول کرتے ہوئے ٹائپ 2 ذیابیطس کی شدت کم رکھنے میں مدد کرتا ہے، وہیں غیر متوقع طور پر یہ انکشاف بھی ہوا کہ یہی پروٹین پسینے میں چکنائی کا اخراج بھی کرتا ہے جس سے وزن اور موٹاپا کم ہوتا ہے۔
تقریباً دو ماہ جاری رہنے والے ان تجربات میں جن چوہوں کو ’ٹی ایس ایل پی‘ پروٹین کی زیادہ مقدار دی گئی تھی، ان کا وزن دوسرے چوہوں کی نسبت 30 فیصد زیادہ غذا استعمال کرنے کے باوجود کم ہوگیا۔
خاص بات یہ تھی کہ چوہوں کے جسم سے پسینے میں چکنائی کا اخراج ہورہا تھا جس سے وزن کم کرنے میں خاطر خواہ مدد مل رہی تھی۔
واضح رہے کہ بچپن سے نوبلوغت میں قدم رکھنے والے بچوں میں، جن کی عمر 10 سے 19 سال کے درمیان ہوتی ہے، جسمانی ہارمونز میں تبدیلیوں کی وجہ سے پسینے کے ساتھ چکنائی کا بھی زیادہ اخراج ہوتا ہے جو بعض اوقات چہرے پر مہاسوں کی وجہ بھی بنتا ہے۔
ڈاکٹر کامبایاشی کے مطابق، یہ پہلا موقع ہے کہ جب امیون سسٹم سے تعلق رکھنے والے کسی پروٹین کو پسینے میں چکنائی کے اخراج کا باعث بنتا ہوا دیکھا گیا ہے۔
البتہ، انہوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ’ٹی ایس ایل پی‘ سے موٹاپے یا ذیابیطس کے باضابطہ علاج تک پہنچنے میں ابھی طویل تحقیق باقی ہے کیونکہ جسم میں اس پروٹین کی زیادہ مقدار کے منفی اثرات بھی ہیں۔
اب ڈاکٹر کامبایاشی مزید تحقیق کررہے ہیں تاکہ موٹاپا اور ذیابیطس کنٹرول کرنے کے حوالے سے ’ٹی ایس ایل پی‘ کا عملی طریقہ (مکینزم) سمجھ کر کسی ایسی نئی دوا یا علاج کی سمت بڑھ سکیں جو مؤثر ہونے کے ساتھ ساتھ کم سے کم سائیڈ ایفیکٹس (ضمنی اثرات) کا حامل بھی ہو۔
نوٹ: یہ تحقیق ریسرچ جرنل ’’سائنس‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہے۔