اسلام آباد: موسم گرما میں بجلی کی طلب میں 20 فیصد اضافے کی اطلاع ملتے ہی حکومت نے ورلڈ بینک (ڈبلیو بی) سے ستمبر کے آخر تک توانائی کے شعبے کے لیے 40 کروڑ ڈالر کے قرض کی منظوری مانگی لی ہے۔
ایک سینئر سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ 27 ستمبر کو ڈبلیو بی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا اجلاس متوقع ہے اور حکام بقایا مسائل کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جن میں سرکلر ڈیٹ (گردشی خسارہ) مینجمنٹ پلان (سی ڈی ایم پی) کو پہلے سے حتمی شکل دینا شامل ہے تاکہ امور احسن طریقے سے حل کیے جا سکیں۔
باخبر ذرائع نے بتایا کہ ڈبلیو بی کے ایک وفد نے جس کی قیادت جنوبی ایشیا کے نائب صدر ہارٹ وِگ شیفر نے کی، وزیر توانائی حماد اظہر اور وزیر منصوبہ بندی اسد عمر سے ملاقات کی۔
دونوں فریقین نے سی ڈی ایم پی کی تازہ ترین صورت حال پر تبادلہ خیال کیا اور اپنی متعلقہ تکنیکی ٹیموں سے کہا کہ وہ جلد سے جلد بورڈ کی منظوری کے لیے پلان کو حتمی شکل دیں۔
حماد اظہر نے ڈبلیو بی کے وفد کو بتایا کہ موسم گرما میں بجلی کی طلب میں 20 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جو کہ توانائی کے شعبے اور معیشت کے لیے اچھا شگون تھا۔
انہوں نے صلاحیت بڑھانے اور ٹرانسمیشن نیٹ ورک کو جدید بنانے کے لیے بینک سے تعاون مانگا ہے۔
ایک سرکاری بیان میں کہا گیا کہ وزیر نے وفد کو بتایا کہ حکومت کی جانب سے مؤثر اقدامات کی وجہ سے گردشی قرضوں میں اضافے کو کافی حد تک کم کیا جا رہا ہے، مالی سال 21 کے دوران گردشی قرضے میں تقریبا 130 ارب روپے شامل کیے گئے جو مالی سال 20 کے مقابلے میں 408 ارب روپے کم تھے۔
بیان میں کہا گیا کہ پاور ڈویژن نے مالی سال 2022 کے اختتام تک موجودہ ٹرانسمیشن نیٹ ورک میں اضافی صلاحیت کے اضافے کا منصوبہ بنایا ہے جس کے لیے فنڈز بھی مختص کیے گئے ہیں۔
ٹرانسمیشن نیٹ ورک کے لیے تقریبا 120 ارب روپے کے فنڈز پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کا حصہ ہیں۔
حماد اظہر نے ’پاکستان کے بجلی کی ترسیل کے نظام کی توسیع اور جدید کاری میں ڈبلیو بی کی مدد کی اہمیت‘ کی حمایت کی۔
اس موقع پر جنوبی ایشیا کے نائب صدر ہارٹ وِگ شیفر نے گردشی قرضے کی نمو میں کمی کو تسلیم کیا اور توانائی کے شعبے میں حکومت کے ساتھ کام جاری رکھنے کے ڈبلیو بی کے عزم کی تجدید کی۔
ڈبلیو بی کے عہدیدار نے تسلیم کیا کہ پاکستان میں 6-7 فیصد کی شرح نمو حاصل کرنے کی صلاحیت ہے اور اہداف کی تکمیل کے لیے دونوں فریقوں کے ماہرین کے گروپ کے درمیان قریب سے کام کرنے پر زور دیا۔
باخبر ذرائع نے بتایا کہ حکومت چند ماہ قبل ڈبلیو بی اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ سے وابستگی کے باوجود صارفین کے ٹیرف میں تقریبا 1.40 روپے فی یونٹ اوسط اضافے کو روکنے کے سیاسی فیصلے کے بعد نظر ثانی شدہ سی ڈی ایم پی کے ساتھ بات چیت کر رہی تھی۔
علاوہ ازیں ڈبلیو بی کے وفد کو منصوبہ بندی کے وزیر اسد عمر نے حکومتی شماریات کے نظام کو جدید بنانے اور اسے ہائی فریکوئنسی ڈیٹا جنریشن کے لیے فعال بنانے حکومتی منصوبوں سے آگاہ کیا۔
اسد عمر نے کہا کہ پی بی ایس 2023 کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری بھی کرائے گا اور اس سلسلے میں ڈبلیو بی کے ٹیکنیکل اسسٹنٹ کی توقع ہے۔