بنگلہ دیش میں اسکول 18 ماہ کی بندش کے بعد کھل گئے
بنگلہ دیش میں اسکولز کورونا وائرس کی وبا کے باعث 18 ماہ کی طویل بندش کے بعد کھل گئے اور بچوں نے خوشی خوشی کلاس رومز کا رخ کیا۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ‘اے ایف پی’ کے مطابق اسکولز دوبارہ کھولنے کا اقدام یونیسف کے اس انتباہ کے بعد سامنے آیا کہ کورونا بحران کے دوران طویل عرصے تک اسکولز بند رکھنے سے جنوبی ایشیا میں کروڑوں بچوں کے لیے عدم مساوات میں بگاڑ آرہا ہے۔
دارالحکومت ڈھاکا کے ایک اسکول میں بچوں کو پھولوں اور مٹھائی سے خوش آمدید کہا گیا اور انہیں ماسک پہننے اور ہاتھ سینیٹائز کرنے کی ہدایت کی گئی، کچھ نے خوشی میں ایک دوسرے کو گلے لگایا۔
15 سالہ منتصر احمد نے کیمپس میں داخل ہوتے وقت کہا کہ ‘ہمیں اسکول واپس آکر بہت خوشی ہے، مجھے امید ہے کہ میں اپنے تمام دوستوں اور اساتذہ کو اب لیپ ٹاپ کی اسکرین کے بجائے آمنے سامنے دیکھوں گا’۔
گیٹ پر اسکول انتظامیہ کی جانب سے داخلے سے قبل طلبہ کا درجہ حرارت چیک کیا گیا۔
اسکول کی وائس پرنسپل دیوان تمیزالزمان نے کہا کہ انہیں پہلے روز اتنی بڑی تعداد میں طلبہ کی واپسی کی امید نہیں تھی۔
بنگلہ دیش کی ٹیلی کام آپریٹرز ایسوسی ایشن کے مطابق ملک کی 16 کروڑ 90 لاکھ کی آبادی میں سے صرف 41 فیصد کے پاس اسمارٹ فونز ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کے لاکھوں بچوں کو آن لائن کلاسز تک رسائی حاصل نہیں ہے۔
اسمارٹ فونز کے باوجود بنگلہ دیش کے دیہی اضلاع میں طلبہ کے پاس تیز رفتار انٹرنیٹ کی سہولت نہیں ہے جس کی ‘ای لرننگ’ کے لیے عام طور پر ضرورت ہوتی ہے۔
یونیسف نے جمعرات کو جاری اپنی رپورٹ میں خبردار کیا تھا کہ عالمی وبا نے خطے کے 43 کروڑ سے زائد بچوں کے لیے خطرناک حد تک عدم مساوات کو جنم دیا ہے۔
یونیسف کے ریجنل ڈائریکٹر جارج لاریا ایجے نے بیان میں کہا کہ ‘جنوبی ایشیا میں اسکولوں کی بندش کے باعث کروڑوں بچے اور ان کے اساتذہ خطے میں کم رفتار انٹرنیٹ اور ڈیوائسز تک رسائی میں کمی کے باوجود ریموٹ لرننگ پر مجبور ہوئے ہیں’۔
انہوں نے کہا کہ ‘اس کے نتیجے میں بچوں کو اپنی تعلیم کے سفر میں کافی مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے’۔
یونیسف کے مطابق بھارت میں 14 سے 18 سال عمر کے درمیان کے 80 فیصد بچوں نے کہا کہ انہوں نے باضابطہ کلاس رومز کے مقابلے کم چیزیں سیکھیں۔
چھ سے 13 سال عمر کے 42 فیصد بچوں کا کہنا تھا کہ انہیں ریموٹ لرننگ تک رسائی ہی حاصل نہیں تھی۔
یونیسف کی رپورٹ میں کہا گیا کہ خطے کے دیگر ممالک میں بھی طلبہ اسی طرح متاثر ہوئے ہیں۔
پاکستان میں 23 فیصد بچوں کو ریموٹ لرننگ کے لیے کسی ڈیوائس تک رسائی حاصل نہیں ہے۔