وزیر خارجہ کا بہتر تعلقات کے لیے امریکا پر افغان تنازع سے آگے بڑھنے پر زور

پاکستان نے امریکا پر زور دیا ہے کہ وہ افغان تنازع سے آگے بڑھ کر دوطرفہ تعلقات استوار کرے جو تجارت، سرمایہ کاری اور عوام سے عوام کے رابطوں پر مشتمل ہوں۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے نیویارک میں کونسل آن فارن ریلیشن (سی ایف آر) میں دوطرفہ تعلقات کے بارے میں اپنے وژن کا خاکہ پیش کیا۔

انہوں نے کہا کہ ‘ہم ایک وسیع البنیاد اور کثیر الجہتی تعلق قائم کرنا چاہتے ہیں، ہم ماضی میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی وضاحت کرنے والے دائرے سے نکلنا چاہتے ہیں’۔

وزیر خارجہ کو افغانستان کے حوالے سے متعدد سوالات کا بھی سامنا کرنا پڑا، سی ایف آر کے صدر، سفیر رچرڈ ہاس نے امریکا میں اکثر ملاقاتوں میں سنائی دیے جانے والے اس خدشے کا اظہار کیا کہ ‘چونکہ پاکستان نے طالبان کو 20 سال تک پناہ گاہیں فراہم کیں اس لیے انہوں نے افغانستان پر دوبارہ اپنا کنٹرول قائم کر لیا۔

 

تاہم وزیر خارجہ نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے قبائلی علاقوں میں طالبان کی پناہ گاہوں کو کلیئر کروانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے اور نو گو ایریاز میں آپریشن بھی کیا، ہم نے انہیں صاف کردیا، اس کے بجائے ہم نے سرحد پر باڑ لگائی اگر آپ پناہ گاہوں کے بارے میں متفکر ہیں تو افغانستان کے اندر دیکھیں۔

سفیر رچرڈ ہاس نے جواب کو جوابی سوال کے لیے استعمال کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا اب طالبان، پاکستان کو بنیاد پرست بنانے کے لیے افغانستان کو استعمال کر سکتے ہیں؟

جس پر وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آج آپ افغانستان کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے عالمی طاقتوں پر زور دیا کہ وہ کابل کے نئے حکمرانوں کو تنہا نہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ اگر بین الاقوامی برادری رابطے توڑدے گی، اگر آپ فوری انسانی بحران کو دور کرنے کے لیے کچھ نہیں کریں گے، اگر آپ افغان معیشت تباہ ہونے دیں گے، اگر آپ بدستور افغانوں کا پیسہ منجمد رکھیں گے تو آپ ان عناصر کے لیے جگہ پیدا کر رہے ہوں گے جن سے ہم نے صحیح طریقے سے لڑنے اور شکست دینے پر اتفاق کیا۔

وزیر خارجہ نے عالمی طاقتوں سے کہا کہ وہ افغانستان میں ایک زیادہ جامع اور مستحکم حکومت کی جانب پیش رفت کی حوصلہ افزائی کریں جو کہ دہشت گرد گروہوں کو جگہ دینے سے انکار کرنے میں زیادہ مؤثر ہوگی۔

خیال رہے کہ وزیر خارجہ، اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76ویں اجلاس میں شرکت کے لیے امریکی شہر نیویارک میں موجود ہیں۔

جہاں اقوامِ متحدہ سے تعلق رکھنے والے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان کو طالبان حکومت تسلیم کرنے کی کوئی جلدی نہیں۔

انہوں نے اس بات کو بھی اجاگر کیا تھا کہ طالبان کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر وہ اپنے جنگ زدہ ملک کی تعمیر نو میں مدد چاہتے ہیں تو انہیں بین الاقوامی رائے اور اصولوں کے لیے زیادہ حساس اور قابل قبول ہونا چاہیے۔