نقصان دہ مواد کی عدم موجودگی پر گرفتاری حقِ عزت کو مجروح کرتی ہے، سپریم کورٹ

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ریمارکس دے ہیں کہ کسی شخص کو بغیر کسی نقصان دہ مواد کی موجودگی پر گرفتاری اور حراست میں رکھنا اس کے حقِ عزت کو مجروح کرتی ہے۔

انسانی وقار اس تصور کا تقاضہ کرتا ہے کہ ہر شخص مساوی اہمیت رکھتا ہے اور کسی کی زندگی اور آزادی کسی دوسرے شخص کی زندگی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔

قومی احتساب بیورو (نیب) کی طرف سے مکمل ثبوت کے بغیر لوگوں کو حراست میں لینے کے عام رویے کے پس منظر میں جسٹس سید منصور علی شاہ نے اپنے فیصلے میں مشاہدہ کیا۔

جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل تین رکنی بینچ کیس کی سماعت کررہا تھا۔

بینچ نے محمد اقبال خان نوری کی جانب سے 26 جون 2019 کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف دائر اپیل پر سماعت کی تھی جس نے ان کی ضمانت کی درخواست خارج کردی تھی۔

اپیل کنندہ کو نیب نے ایک تفتیش کے دوران گرفتار کیا اور حراست میں لیا جو کہ اب بھی جعلی بینک اکاؤنٹس اسکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف جاری ہے۔

درخواست گزار نے آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت آئی ایچ سی میں دو علحیدہ علحیدہ پٹیشن دائر کی تھیں جس میں کہا گیا تھا کہ اس کیس کے حتمی فیصلے تک ضمانت پر رہائی دی جائے لیکن ہائی کورٹ نے 26 جون 2019 کو ان درخواستوں کو خارج کر دیا تھا۔

جسٹس منظور علی شاہ نے ریماکس دیے کہ آئینی عدالت کسی فرد کو اس کے بنیادی حق سے محروم کرنے کے لیے مواد/ثبوت کافی ہونا چاہیے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ ’آئین کے تحت، آئینی عدالتیں کسی شخص کے بنیادی حقوق کی حفاظت کرتی ہیں، آرٹیکل 199 کے تحت ہائیکورٹ کو اختیار ہے کہ وہ چیئرمین نیب یا نیب کے کسی دوسرے مجاز افسر کی جانب سے کسی شخص کی گرفتاری اور حراست کے حوالے سے دیے گئے حکم کا عدالتی جائزہ لے‘۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کسی شخص کو بغیر کسی قابل اعتراض مواد/شواہد کے گرفتار کرنا اور حراست میں لینا اس کے منصفانہ مقدمے کے حق کو مجروح کرے گا۔

جسٹس منصور شاہ نے مشاہدہ کیا کہ کسی شخص کو بغیر کسی قابل اعتراض/ نقصان دہ مواد کی بنیاد پر گرفتاری اور حراست میں رکھنا اس کے حق عزت کو مجروح کرتا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) کا تقاضا ہے کہ اگر کسی شخص کے خلاف کارروائی شروع کی جائے اور معاملہ انکوائری یا تفتیش کے لیے بھیجا جائے تو چیئرمین نیب ’رائے‘ تشکیل دیں۔

اس میں کہا گیا کہ ’اگر عدالت مطمئن نہیں ہے کہ ملزم کے مجرم ہونے پر یقین کرنے کے معقول شواد ہیں تو عدالت کو بنیادی حقوق کے نفاذ میں ضمانت دینا ہوگی‘۔

فیصلے میں کہا گیا کہ اگر مقدمے کی سماعت کے بعد ملزم بری ہو جاتا ہے تو ضمانت سے انکار کی وجہ سے ملزم کے ساتھ اس کے خاندان یا قریبی افراد پر معاشی، سماجی اور نفسیاتی اثرات سمیت جیل میں گزارے گئے قیمتی وقت کے ضیاع کا کوئی معاوضہ نہیں ہے۔

اس کے نتیجے میں سپریم کورٹ نے درخواست گزار کی ضمانت منظور کر لی اور فی کس 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے پر ضمانت منظور کرلی۔