قبل از وقت انتخابات کی چاپ

کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ہماری سیاست اور سیاست دانوں کا باہمی تعلق کیسا ہے؟ جمہوریت اور الیکشن کے ہنگام میں عوام اور ووٹر کیا بیچتے ہیں؟غیر یقینی نے ملکی معیشت کا ستیا ناس کر دیاہے مگر حکو مت اور اپوزیشن دونو ں ما رچ ،ما رچ کھیل رہے ہیں۔ 74سال میں ہم نے کچھ بہتر نہیں کیا بلکہ ہر شے کی ریڑ ھ ما ر دی ہے ۔ تیل کی قیمتیں عالمی منڈی میں بڑ ھ رہی ہیں ہما ری سٹاک ایکسچینج گر رہی ہے مگر کسی کو رتی برابر پروا ہ نہیں۔ کسی نے پا نچ دن کی مہلت دی تھی تو کو ئی 72گھنٹے کا اعلا ن کر رہا تھا ، ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں پھنسے ہوئے اور آئی ایم ایف کی قسط کے محتاج ملک کی اشرافیہ با لکل وہی کچھ بلکہ اس سے بھی بد تر کر رہی ہے جو ہلاکو خان کی بغداد پر چڑھائی سے پہلے وہاں کی اشرافیہ کر رہی تھی ۔بد قسمتی سے ہما ری روایت رہی ہے کہ ہما رے الیکشن میں یا تو ہم جیت جا تے ہیںیا دھاند لی ہو جا تی ہے کبھی کو ئی جما عت یا فر د انتخاب ہارا نہیں -یہی وجہ ہے ہا ر کے بعد کو ئی بند ہ یا جماعت محنت نہیں کر تے ، لو گو ں سے محبت نہیں کر تے بلکہ پنڈی صدر کی گلیو ں اور اسلا م آبا د کے محفوظ مراکز میں لین دین کر تے ہیں۔ہما ری سیاست لو گو ں کی خدمت کا ذریعہ نہیں بلکہ کا روبا ر ہے اور اسی لیے ہر دو چار سالوں کے بعد "لوٹوں”کی دوکا نیں اور "گھوڑوں”کے اصطبل کھل جاتے ہیں ۔
سابق وزیر اعظم کہتا تھا کہ میر ے سینے میں بہت سے رازہیں ، وہ بلیک میل کر نے کی دھمکی دیتا تھا -وہ سب جو ایک دوسر ے کو سڑکو ں پر گھسیٹنے کے دعوے کر تے تھے اب محبت کی پینگیں بڑھا رہے ہیں -پیٹ پھاڑنے والے اور چالیس چو ر اب مل کر مجھے اور آپ کو "بچانے "کی دھمکی دیتے ہیں – 1973کے آئین کے تنا ظر میں "بسیں لو ٹنے والے "اب ملک لوٹنے والو ں کے ساتھ مل کر ہمیں "لٹنے” سے بچانے کیلئے میدان میں نکلے ہیں تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہما رے "آپشنز”کتنے محدود ہیں، ایمپا ئر کے پا س اختیا ر بھی کتنا ہے ؟بہر حال یہ طے ہے کہ وزیر اعظم عمران خا ن اب قبل از وقت انتخابا ت کے لیے تیا ر ہیں اور اپو زیشن کو حیران کر نے کے لئے ٹائمنگ کا اختیا ر اپنے پا س رکھنا چاہتے ہیں۔ دو بہت اہم دستا ویزات پروزیر اعظم نے صدر مملکت کے آٹوگراف حا صل کر لئے ہیں اور یہ دستاویز وہ کیسے استعما ل کر نا چاہتے ہیں اس با رے میں راوی خامو ش ہے ۔ لیکن اشاروں کنایوںمیں با ت واضح ہو رہی ہے۔پرسوں وزیر اعظم کے خطا ب میںعدم اعتما د کی ناکامی کی صورت میں جو نتائج کی "چتاونی”دی گئی ہے اسے اپوزیشن غیر اخلا قی اور پتہ نہیں کن کن الفا ظ سے یا د کر رہی ہے ۔”غیر اخلا قی "واقعی ؟مجھے تو آج تک پا کستانی سیاست کی جو تھو ڑی بہت سمجھ آئی ہے وہ یہی ہے کہ ہما ری سیاست کا "اخلا قیات "،اصول یا منشور سے کو ئی تعلق نہیں ہما ری سیاست تو بہت عریا ں انداز میں صرف اور صرف اقتدار کی تلا ش میں شہر کی گلیوں اور نہر کے کنا رے یا بس سٹاپو ں پر اشارے کر تی نظر آتی ہے ۔عوام کے ووٹ تو صرف اور صرف سیڑھی کے طور پر استعما ل ہو تے ہیں اسی لیے روس کے یو کرائن کے ساتھ معاملا ت بد سے بد تر ہو نے کے دوران بھی اپوزیشن سڑکو ں پر ہے ۔ پا کستان آنیوالے دنو ں میں روس، چین اور تر کی کے ساتھ ساتھ دو ہمسایہ مما لک کو ملا کر نیا علا قائی اتحاد تشکیل دینے کی طر ف بڑھ رہاہے ۔ ایسے میں ما رچ اور تحر یک عدم اعتما د سوائے تقسیم اور انتشار کے کچھ نہیں لا ئے گی ۔انتشار کس ایجنڈا کو فائدہ پہنچائے گا ؟اس سوال کے جو اب کیلئے پی ایچ ڈی کی ضرورت نہیں کسی کے پاس "چڑیا "کی خبر یں ہو تی ہیں تو کوئی بد روح سے فیض پاتا ہے ۔
دم توڑتے نظام پر منڈلاتے ایک "گدھ” نے یہ درفنطنی چھوڑی ہے کہ اب تک کر پشن سے متعلق تما م مقدما ت ما ضی میں قائم کیے گئے تھے تاہم اب مو جو دہ حکو مت نے بھی کر پشن مقدما ت کا کھاتہ کھولنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔تین سے چار اہم شخصیا ت جن پر مستقبل قر یب میں اپوزیشن تحریک عدم اعتما د کا میا ب کرانے کیلئے انحصار کیے ہو ئے ہے ، کے خلا ف تحقیقات مکمل کر لی گئی ہیں۔ اور یہ تمام شواہد اب صرف باضابطہ طورپر سامنے لائے جانے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ یہ تحقیقات اور اس کے نتائج باقاعدہ مقدمات کی صورت اختیار کرلیں۔
ملکی معاشی اور بین الاقوامی معاملات آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ آنیوالے دنوں میں مزید سخت فیصلے سامنے آسکتے ہیں۔ پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں عوام کو دیا گیا ریلیف اگر واپس نہ لیا گیا تو اس کا صرف اور صرف ایک ہی مطلب ہوگا کہ پاکستان تحریک انصاف نے نئے انتخابات کی تیاری شروع کر دی ہے اور مزید انقلابی اقدامات کے ذریعے خزانے پر بوجھ بڑھا کر عوام کو مزید آسانی فراہم کی جائے گی۔ ظاہر ہے وہ ڈنگ ٹپاو پالیسی جو ماضی کی تمام حکومتوں کا طرہ امتیاز رہی ہے اس کی واپسی ہونے کو ہے کہ اب سے جو اقتصادی بوجھ خزانے پر پڑے گا وہ آنیوالی حکومت کا درد سر ہوگا۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے امکانات کم ہیں لیکن چائے کی پیالی میں طوفان بپا کرکے معیشت کو مشکل میں ڈال دیا گیا ہے۔ عدم اعتماد کے لیے حکومت نے طے کیا ہے کہ وہ اس روز اپنے ممبران کو ہاوس سے غیر حاضر رکھے گی اور یہ اپوزیشن کا درد سر ہے کہ وہ 172 ووٹ پورے کرے خواہ تحریک وزیراعظم کے خلاف آئے یا سپیکر کے۔اس تحریک سے کسی کو فائدہ ہو یا نہ ہو۔ نقصان ملک کا ہورہا ہے لیکن ہماری سیاست اسی طرح سے 74 سال سے تنزلی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہے کہ آغا شورش کاشمیری کا شعر ہر دور کی کہانی بیان کرتا معلوم ہوتا ہے
آئی سی سی ویمن کرکٹ کپ:پاکستان کل اپنادوسرامیچ آسٹریلیا کے خلاف کھیلے گا
مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
بازار حسن اور طوائف کا رشتہ تو سمجھ میں آتا ہے موتیے کے ہار لیے کھڑے لوگ بھی لگتا ہے اس منظر کا حصہ ہیں کہ ان کے بغیر تصویر مکمل نہیں ہوتی!
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭