امریکا کو اسلحہ بیچنے سے غرض ہے
یوکرین کو اسلحے کی ضرورت ہے۔ اسے کئی ذرائع سے اسلحہ مل رہا ہے تاہم ناٹو کے نیٹ ورک کی حدود میں اسے اسلحہ فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک امریکا ہے۔ 2017 میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین کو اسلحہ فراہم کرنے کی اجازت دی تھی۔ پہلی شپمنٹ 4 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کی تھی۔ تب اسٹرٹیجک امور کے ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ ایسا کرنا خطرناک ہوگا کیونکہ روس کے تحفظات بڑھیں گے۔ تب برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز نے ایک تجزیے میں لکھا تھا کہ روس اور یوکرین کے درمیان معاملات منجمد رہیں تو کوئی بات نہیں۔ اگر یہ عفریت بیدار ہوا تو بہت خرابیاں پیدا کرے گا۔ بیش تر مبصرین کا خیال تھا کہ یوکرین کو امریکا اور دیگر ممالک کی طرف سے اسلحہ فراہم کیے جانے پر روسی قیادت چِڑ کر کوئی انتہائی نوعیت کا قدم اٹھا سکتی ہے۔
جوزف بائیڈن نے بھی یوکرین کو اسلحہ دینا جاری رکھا ہے۔ 24 فروری کو یوکرین پر روس کے حملے شروع ہونے کے بعد بھی امریکا نے اعلان کیا کہ وہ یوکرین کو اسلحے کی فراہمی جاری رکھے گا۔ یہ حالیہ چند ماہ کے دوران تیسری بڑی کھیپ ہوگی جو کم و بیش 35 ارب ڈالر کی ہوگی۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے گزشتہ ہفتے بتایا کہ ایک سال کے دوران امریکا نے یوکرین کو کم و بیش ایک ارب ڈالر کے ہتھیار اور گولا بارود دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ 2019 کے بعد سے یوکرین کو ہتھیار اور میزائل وغیرہ کی فراہمی تیز ہوگئی۔ امریکا نے جیولین اینٹی ٹینک سسٹم اور میزائل فراہم کرنے پر زیادہ توجہ دی ہے۔ امریکی اخبار دی وال اسٹریٹ جرنل نے 6 فروری کو ایک رپورٹ میں بتایا کہ 22 جنوری کے بعد سے امریکا کے 8 کارگو طیارے یوکرین پہنچے ہیں۔ یاد رہے کہ صدر بائیڈن نے چند ماہ قبل 20 کروڑ ڈالر کے ہتھیار فراہم کرنے کی منظوری دی تھی۔
2019 میں برطانیہ کی آکسفرڈ یونیورسٹی کے ایک محقق و مبصر نے کہا تھا کہ یوکرین کو خطرناک ہتھیار دینا جلتی پر تیل چھڑکنے جیسا ہے کیونکہ اِس سے روس ناراض ہوگا۔ انتباہ کے بعد امریکی قیادت نے نہ صرف یہ کہ یوکرین کو اسلحہ دینا جاری رکھا بلکہ رسد کی رفتار بھی تیز کردی۔ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کا سب سے زیادہ فائدہ کسے پہنچے گا؟ امریکا کو۔ دنیا بھر میں اسلحہ فروخت کرنے والا وہ سب سے بڑا ملک ہے۔ تجزیہ کاروں نے بہت پہلے خبردار کردیا تھا کہ یوکرین کو اسلحہ دینا روس کو جنگ شروع کرنے کی دعوت دینے کے مترادف ہے۔
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ دنیا بھر میں اسلحہ تیار اور فروخت کرنے والے 10 بڑے اداروں میں 5 امریکا میں ہیں اور سب سے بڑا اسلحہ ساز ادارہ (لاک ہیڈ مارٹن) بھی امریکا ہی میں ہے۔ لاک ہیڈ مارٹن نے 2018 میں یوکرین کو جیولین اینٹی ٹینک میزائل فراہم کیے تھے۔ 2019 میں یوکرین کے قضیے پر مذاکرات کے لیے امریکی صدر کے خصوصی مندوب کرٹ واکر نے بتایا تھا کہ یوکرین کی مدد جاری رہے گی۔ بعد میں پتا چلا کہ یہ مدد اسلحے کی تجارت کی شکل میں ہوگی۔ ولادیمیر زیلنسکی سیاسی اعتبار سے ناتجربہ کار ہیں۔ قوم پرستی کی لہر میں بہہ کر انہوں نے امریکا اور دیگر مغربی ممالک سے اسلحہ لینا شروع کیا۔ امریکا نے اس صورت ِ حال کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ اسلحہ بیچنے کی کوشش کی۔
امریکا نے صاف کہہ دیا ہے کہ وہ اپنی فوج یوکرین نہیں بھیجے گا۔ وہ تو صرف اسلحہ فراہم کرنے میں دلچسپی لیتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اس کے اسلحہ ساز کارخانے چلتے رہیں۔ روس نے جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی دی تو دنیا لرز گئی مگر امریکا نے کوئی اثر نہ لیا۔ امریکی قیادت کو صرف اس بات سے غرض ہے کہ اسلحے کی منڈی میں تیزی رہے اور سارا فائدہ اس کی تجوری میں منتقل ہو۔
ولادیمیر پیوٹن نے دو ماہ پہلے سے واضح اشارے دینا شروع کردیا تھا کہ وہ یوکرین کے معاملے میں حد سے گزر سکتے ہیں مگر مغربی دنیا ٹس سے مس نہ ہوئی۔ امریکا اور اس کے یورپی اتحادی جانتے تھے کہ پیوٹن یوکرین پر حملے کا حکم دے سکتے ہیں مگر پھر بھی انہوں نے کشیدگی کو ہوا دینے پر توجہ مرکوز رکھی۔ 26 جنوری کو برطانوی وزیر خارجہ لِز ٹرس نے بتایا تھا کہ یوکرین کی سرحد پر لاکھوں روسی فوجی موجود ہیں۔ اس پر بھی برطانوی ریسپانس اینٹی ٹینک ہتھیاروں کی فراہمی تک محدود رہا۔
یوکرین کو صرف امریکا اور برطانیہ ہتھیار نہیں بیچ رہے۔ جرمنی، اٹلی اور ترکی بھی لائن میں ہیں۔ ان ممالک کے نجی اور سرکاری اسلحہ ساز ادارے یوکرین کا دفاع مضبوط بنانے کے نام پر اپنی تجوریاں بھرتے رہے ہیں۔ 1982 میں برطانیہ اور ارجنٹائن کے درمیان بحرِ اوقیانوس کے فاک لینڈ جزائر پر جنگ ہوئی تھی۔ اس جنگ میں ارجنٹائن نے فرانس کے فراہم کیے ہوئے ساز و سامان کی مدد سے فتح پائی تھی۔ اس کے نتیجے میں فرانس کے ہتھیاروں اور میزائل سسٹم کی مانگ بڑھ گئی تھی۔
یوکرین اور دیگر پڑوسی ممالک میں ہتھیاروں کے ڈھیر بھی ولادیمیر پیوٹن کو جنگ کا آپشن استعمال کرنے پر اکساتے رہے ہیں۔ روسی قیادت ناٹو کی توسیع کے خلاف ہے۔ وہ نہیں چاہتی کہ روس سے جڑے ہوئے ممالک کو ناٹو کی رکنیت دی جائے کیونکہ اس عمل کو وہ اپنی سلامتی اور سالمیت کے لیے بہت بڑا خطرہ تصور کرتی ہے۔ سابق امریکی صدر جارج واکر بش نے اپنے عہدِ صدارت میں یوکرین کو اسلحہ دینے کی منظوری دی تھی تب بھی پیوٹن نے خبردار کیا تھا کہ ایسا کرنے سے خطے میں طاقت کا توازن بگڑے گا اور معاملات ہتھیاروں کے استعمال تک پہنچ جائیں گے۔ 2008 میں روس اور جارجیا کے درمیان لڑائی ہوئی تھی۔ روس کے انتباہ کے باوجود امریکا نے جارجیا کو ہتھیار فراہم کرنا جاری رکھا تھا۔ جارجیا کے صدر میخائل ساکاشوِلی نے امریکا کی یقین دہانی پر بھروسا کرتے ہوئے روس سے ٹکر لی۔ امریکا نے کہا تھا کہ جارجیا ناٹو کا رکن نہیں ہے تو کیا ہوا۔ روس نے حملہ کیا تو وہ جارجیا کے دفاع میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ امریکی یقینی دہانی سے میخائل ساکاشوِلی کو شہہ ملی اور انہوں نے جارجیا کی حدود میں علیحدگی پسند روسیوں کے زیرِ تصرف علاقے پر حملہ کردیا۔ وہاں 1990 سے روس کی امن فوج تعینات تھی۔ جارجین فوج کے حملوں میں روس کے متعدد امن فوجی ہلاک ہوئے۔ یوں امریکی یقین دہانی پر بھروسا کرنا جارجیا کو بہت مہنگا پڑا۔ روس بپھر گیا اور جارجیا کو اس مہم جوئی کی خاصی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔
بارک اوباما نے امریکی صدر کے منصب پر فائز ہوتے ہی جارجیا کو اسلحے کی فراہمی روک دی۔ معاملات کچھ بہتر ہوئے مگر پھر ڈونلڈ ٹرمپ نے آتے ہی جارجیا کو اسلحہ دینا شروع کردیا۔ وہ جانتے تھے کہ یوکرین جس قدر اسلحہ خریدے گا امریکی کنٹریکٹر اسی قدر فائدے میں رہیں گے اور نقصان اگر ہوگا بھی تو صرف یوکرین کے عوام کا۔ یوکرین تباہ ہوگا تو تعمیر ِ نو کی ضرورت پڑے گی۔ تب بھی امریکی کمپنیاں مزے لوٹیں گی۔ اور پھر یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ یوکرین پر لشکر کشی کے نتیجے میں روسی معیشت بھی کمزور پڑے گی۔ اس کمزوری کو دور کرنے کے لیے طویل مدت درکار ہوگی۔ امریکا کو افغانستان سے اپنی بساط لپیٹنے میں سبکی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اب وہ روس کو ایک جنگ میں الجھاکر اپنا الو سیدھا کرنا چاہتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭