ہائے ڈھائی سال!!!
تحریر: عظمٰی گل
"اے لوگو مجھے تم لوگوں کا خلیفہ چنا گیا ہے، جس کے لیےنہ مجھ سے مشورہ کیا گیا، نہ ہی میری رضامندی حاصل کی گئی اور نہ اس عہدے کے لیے میری خواہش ہے۔ آج میں آپ لوگوں سے اپنی وفاداری کی بیت کا بوجھ اتارتا ہوں تاکہ آپ اپنے لیے خود کسی قابل شخص کو بطور خلیفہ چن سکیں”۔ لوگوں نے کہا "اے عمر ہمیں آپ پر پورا بھروسہ ہے اور آپ ہی ہمارے خلیفہ ہیں”۔ جس پر آپ نے کہا "جب تک میں اللہ کی اطاعت کروں تو میری اطاعت کرو ،اگر میں اللہ کی اطاعت نہ کروں تو تم پر میری اطاعت واجب نہیں”۔ یہ تھے حضرت عمرؒ بن عبد العزیزجو بنوامیہ کے آٹھویں خلیفہ بنے۔ ان کو محبت سے چاروں خلفائے راشدین کے بعد اسلام کا آخری اور پانچواں خلیفہ بھی کہا جاتا ہے۔ آپ گورنر مصر عبدالعزیز بن مروان کے بیٹے تھے اور آپ کی والدہ ام عاصم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پوتی تھیں۔ آپ کی زوجہ فاطمہ خلیفہ عبدالمالک کی بیٹی تھیں۔ تاریخ میں ان جیسے بہت ہی کم حکمران ہیں جنہوں نے اپنے اعلی طرز حکمرانی ،وسعت نظر ،بے لوث خدمت خلق ،عوام دوستی، انصاف پسندی جذبہ ترحم سے بھرپور، نیکی اور دین داری کے باعث دنیا پر انمٹ نقوش چھوڑے ہوں۔ خلیفہ بننے سے پہلے آپ اپنی خوش لباسی اور خوشبوؤں میں اعلیٰ ذوق کے باعث مشہور تھے۔خوش شکل ہونے کے علاوہ آپ نے مدینہ میں بہترین اساتذہ سے تعلیم پائی تھی۔ گورنر کے بیٹے ہونے کے علاوہ آپ خود بھی مصر اور مدینہ کے 22 سال تک گورنر رہے چکے تھے۔ آپ سے پہلے بنو امیہ کے خلفاء نے حضرت محمد صلی اللہ وسلم کے سادگی کے بتائے اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جاہ و جلال سے بھرپور طریقٔہ زندگی اختیار کیا، شاہانہ شان و شوکت والے محلات تعمیر کئے ۔ ملازموں اور خادموں کی فوج ان کی ذاتی خدمات کے لئے مامور ہوتی تھی۔سر کاری خزانے کو ذاتی مقاصد کے لئے بے دریغ استعمال کیا ۔ خلافت موروثی ہو چکی تھی اور عوام کی رائے کا سرکاری معاملات میں کوئی عمل دخل نہ تھا۔ وہ خلیفہ کے فیصلوں کو ہر حالت میں ماننے کے پابند تھے، ورنہ انہیں کڑی سے کڑی سزا کا سامنا کرنا پڑتا۔حضرت عمرؒ بن عبدالعزیزحادثاتی طور پر خلیفہ بنے۔ خلیفہ سلیمان نے بستر مرگ پر ان کے لیے وصیت کی کیونکہ ان کے بچے چھوٹے تھے۔ آپ نے ہر وہ آسائش جو بطورخلیفہ انہیں میسر تھی کو خیر باد کہہ دیا۔ اپنی اور اپنی زوجہ کی سب آبائی جائیدادیں اور مال و زر سرکار کے حوالے کردیا۔نو مسلموں سے جذیہ وصول کرتے رہنے کا دستور ختم کردیا۔ اعتراض ہوا کہ ایسے محصول کی رقم میں خاطر خواہ کمی ہوجائے گی تو کہا میں اسلام کی دعوت دینے آیا ہوں، محصول جمع کرنے نہیں۔ آپ بہت بڑے عالم تھے اور بڑے بڑے جید علماء کو قریب رکھتے تھے ۔آپ نے مسلمانوں کے درمیان تفرقہ بازی اورجھگڑوں کو بہت کامیابی سے حل کیا اور اسی تفرقہ بازی کی وجہ سے اہلبیت کے خلاف ہونے والی گستاخیوں کی سختی سے ممانعت کی۔ آپ نے بیرونی فتوحات کی جانب دیکھنے کی بجائے، اندرونی خلفشار ختم کرنے کی کوشش کی۔ ایسامعلوم ہوتا کہ جیسے حضرت عمر ؒکا دور حکومت واپس آگیا ہو۔ آپ نےاپنی حکومت کے صرف ڈھائی سال میں معیشت کو بے انتہا مضبوط کیا۔ سب سے پہلے کاروباری شعبے میں اجارہ داریوں کا خاتمہ کیا۔ لوگوں کے مال اور اثاثہ جات کی ناجائز ضبطگیوں پر پابندی لگا دی۔ آبپاشی کے نظام کو بہتر کیا،پل بنائے، سڑکیں بنائیں ،نکاسٔی آب کے نظام کو بہتر کیا۔ ان ترقیاتی کاموں کے لیے عوام پر اضافی محصول بھی نہیں لگایا بلکہ سرکار کے اخراجات کم کیے۔کاروبار کے تحفظ کی ضمانت بیت المال دیتا جس سے تاجر بے دھڑک کام کرسکتےتھے۔ آپ نے گورنروں اور ان کے قریبی رشتہ داروں کیلئے ذاتی کاروبار ممنوع قرار دیا تھا تاکہ وہ اپنے حق میں منڈیوں پر اثرانداز نہ ہو سکیں۔ آپ کی تنخواہ اپنے گورنروں سے بھی کم تھی اور آپ کا خاندان بہت ہی غریبانہ زندگی گزارتا تھا جبکہ عوام خوشحال تھے۔ سرکاری خزانے کےاستعمال میں بہت باکفایت تھے، یہاں تک کہ سرکاری امور کے لیے استعمال ہوتا ہوا دیا بھی اپنے ذاتی کام کے دوران بجھا دیتے۔ آپ کی گورنروں کو بھی سرکاری خزانے کے استعمال سے متعلق سخت ہدایات تھیں۔ آپ کے دور حکومت میں حزب اختلاف یا خارجیوں کے ساتھ بھی حسن سلوک، صبر اور برداشت سے معاملات طے کیے جاتے۔ آپ نے انصاف پر مبنی پالیسیاں بنائیں اور عام شخص کے جان و مال کو تحفظ فراہم کیا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ آپ سے راضی ہو۔آمین
حضرت عمر ؒبن عبدالعزیزکی وفات کے صدیوں بعد پاکستانی قوم نے اپنے لئے ان جیسے ہی حکمران کا خواب دیکھا۔ عمران خان نے بھی اپنی تقریروں اور انٹرویوز میں اپنے آپ کو اس خواب کی تعبیر کے طور پر پیش کیا۔پوری قوم ایسی خوش بخت تبدیلی کی خواہاں تھی جس سے پاکستان کےوجود میں آنے کا مقصد بھی پورا ہو اور عوام کی مشکلات بھی دور ہو جائیں۔ 70 سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی رہی،پھر بڑی مشکل سے ہمارے چمن میں یہ دیدہ ور عوام کی قسمت روشن کرنے والا تھا! الیکشن میں جیت کر حکومت میں آنے تک عمران خان یہ یقین دلاتے رہے کہ اگر انہیں لولی لنگڑی، کمزور اور بے اختیار حکومت کرنے کا موقع ملا تو وہ انکار کر دیں گے اور بیساکھیوں پر اپنی حکومت قائم نہیں کریں گے جبکہ حکومت بنانے کیلئے جو کچھ ہوا وہ اس کے منافی تھا۔ آپ کے وعدے کہ سادگی اختیار کی جائے گی اور تمام بڑی سرکاری عمارات اور محلات عوام کی خدمت کے لیے وقف کیے جائیں گے، ہوا ہوئے! کرپشن کے خاتمہ کے لیئے کرپٹ کو پکڑنا تھا مگر سوائے شریف خاندان کےبہت سے کرپٹ سیاستدان اور مافیاز تو آپ کی اپنی پارٹی میں شامل یا آپ کی مالی اعانت کا ذمہ اٹھائے ہوئے ہیں۔ شاہانہ طرز زندگی سے آپ دستبردار نہ ہو سکے جبکہ آپ کے سرکاری دسترخوان جس سے تو بادشاہ کا دسترخوان بھی شرمائے کی تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہتی ہیں۔ ادھر آپ کے قریبی ساتھیوں کی شاہ خرچیاں، بڑےبڑے کھانچے،حیرت انگیز تنخواہیں، مشیروں کی فوج ظفر موج اور مراعات خزانے پر بھاری بھرکم بوجھ سے کم نہیں۔ اپنے اتحادیوں کو تو چھوڑیں، خود اپنی پارٹی کے کارکن مشیروں سے سخت نالاں ہیں۔الیکشن لڑ کر، اپنا پیسہ خرچ کرکے وہ ایوانوں میں تو آگئے مگر فائدے اٹھائے مشیروں نے! یہ تو ایسے ہی ہے جیسے” دکھ اٹھائیں بی فاختہ اور کوّے انڈے کھائیں "۔کاروبار کا حال ہے کہ کسی کو پتہ نہیں کہ حکومت کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ مافیاز کے زور سے معلوم ہوتا ہے جیسے حکومت مافیاز ہی چلا رہے ہیں۔ وزیراعظم ایک مخصوص گروہ میں گھرے ہوئے ہیں اور انہیں پر اعتماد کرتے ہیں۔ جو بتایا جاتا ہے یقین کر لیتے ہیں، جب ہی تو آئےروز وزیراعظم کے بیانات میں اعداد و شمار، معاہدات کی تفاصیل اور دیگر اطلاعات سب غلط ثابت ہو جاتی ہیں۔ اب تک ملک کی تعمیر وترقی کے لئے کوئی بھی عوام دوست فیصلہ نہ کیا گیا۔ حکومت کے فیصلوں سے ہر دفعہ کسی نہ کسی مافیا کو ہی فائدہ پہنچتا ہے ۔عوام سے صرف اب تک قربانیاں ہی مانگی گئیں ہیں مگر بدلے میں انہیں کیا دیا گیا؟انصاف کے لیے کہا جاتا ہے کہ نہ صرف انصاف ہونا چا ہئے بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آنا چا ہئے۔ آج ہمارے پیارے وطن میں کسی بھی شعبے میں انصاف نام کی کوئی چیز نہیں۔ لوگوں کے مسائل سے یکسر بے خبر،آنکھوں کانوں پرپٹی باندھے ایسی حکمرانی کا انجام بلآخر کیا ہوگا؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے وزیراعظم عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کریں۔ ان کو درپیش مسائل سے خود براہ راست شناسائی حاصل کریں،دوسروں کے ذریعے معلومات نہ لیں۔ معیشت ہو یا پھر کوئی اور شعٔبہ زندگی ،ہر جگہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے فرمان اور رسول اللہ ؐ کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کریں۔اسی میں کامیابی کا راز پنہاں ہے۔ عوام سکون چاہتےہیں، تحفظ کے خواہاں ہیں، ہمدردی اور وزیراعظم کے ترحم کے حق دار ہیں۔ جو لوگ انکے اورعوام کے درمیان حائل ہیں انہیں راستے سے ہٹا دیں۔ یہ کالی بھیڑیں حکومت کو بلآخر اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھا دیں گی۔ جناب وزیراعظم صاحب! عوام آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں ڈھائی سال آپکے بھی ہوگئے ہیں حضرت عمرؒ بن عبدالعزیز کے ڈھائی سالہ دورِ جکومت جتنے۔ اب بھی وقت ہے آپ اپنے پر عوام کے اعتماد کا حق ادا کریں۔
؎ خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں