ویکسین یہاں تیار کیوں نہیں ہوتی۔ آرٹس کونسل کی پیروی کریں ۔

سچ تو یہ ہے،

بشیر سدوزئی،

خوف اور موت کی علامت ،کرونا وائرس سے نجات اور زندگی کے تحفظ کا ویکسینیشین ہی واحد آسرا ہے۔ جس پر دنیا بھر میں تیزی سے کام شروع ہو چکا۔ ماہرین کے مطابق کسی ملک کی 50 فیصد آبادی کو ویکسین لگ جائے تب وہ ملک وائرس کی تباہ کاری کے خطرات سے باہر نکل آئے گا ۔ پاکستان میں ویکسین لگانے کا آغاز 2 فروری 2021ء سے ہوا تو ہے، لیکن خطرات سے باہر نکلنے میں پانچ اور مکمل ہونے میں دس سال کا عرصہ لگے گا ۔ گویا مذید پانچ سال تک پاکستانیوں کے دل و دماغ پر کرونا وائرس کا خوف طاری رہے گا۔ دنیا کے اکثر ممالک 50 فیصد آبادی کو انجکشن لگانے کا حدف مکمل کر چکے۔ان میں اکثریت ایسے ممالک کی ہے جو ویکسین خود تیار کر رہے ہیں یا انہوں نے اکتوبر، نومبر 2020ء کو ضرورت کے مطابق ویکسین کی بکنگ کرا دی تھی۔ پری بکنگ نہ کرانے کے باعث پاکستان کو ضرورت کے مطابق دوا نہیں مل رہی اور نہ خود تیار کر رہا ہے ۔ پرائیویٹ سیکٹر روس کی دوا منگوا رہا تھا لیکن ایک خطرے ناک اسکینڈل سامنے آیا کہ پانچ سو روپے کی ویکسین کی قیمت پندرہ ہزار روپے وصول کی جائے گی، حکومت نے اس کی دی ہوئی اجازت منسوخ کر دی اس وقت پاکستان میں ویکسین کی شدید کمی ہے ۔ ڈاکٹر عبید کا کہنا ہے کہ آج کی صورت حال میں اکر این آئی ایچ کو اجازت اور وسائل مہیا ہوں تو کورڈ 19 کی ویکسین ڈھائی سے تین ماہ کے اندر تیار کی جا سکتی ہے ۔ جس پر لاگت کا تخمینہ ڈھائی سے تین سو روپے سے زیادہ نہیں۔ ایک شہری تک پانچ سے چھ سو روپے میں پہنچ سکتی ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر عبید کا کہنا تھا کہ این آئی ایچ کے پاس ویکسین بنانے کی تمام تر افرادی قوت اور ٹیکنالوجی موجود ہے لیکن ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے ہر قسم کی ویکسین بنانے سے روک رکھا ہے۔ یہ اب ایک کاروبار ہو چکا اور کاروبار منافع کمانے کے لیے ہی کیا جاتا ہے ۔ اس لیے باہر سے منگوائی جاتی ہے۔ ایک چینل پر اگر ڈرگ سے متعلقہ اتنا بڑا ڈاکٹر غلط بیانی اور قوم کو گمراہ کر رہا ہے تو اس کو طلب کیا جانا چاہئے ۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر خان صاحب انتظار کس بات کا ” آ گیا وہ شہکار جس کا تھا انتظار ” ۔ خان صاحب اب آپ کو نواز شریف یا زرداری تو اس نیک کام سے نہیں روک رہے یا پھر وہی رونا دونا کہ این آئی ایچ سابق لوگوں نے بند کر دیا تھا اس لیے ویکسین یہاں تیار نہیں ہو سکتی۔ باہر سے منگوائی جا رہی ہے چوں کہ باہر سے بھی وافر مقدار میں نہیں مل رہی اس لیے کمی ہے ” میرے پاکستانیوں گھبرانہ نہیں ہے ” ۔آخر کب تک ۔جب کمپنیوں کے پاس تیار کرنے کی صلاحیت سے زیادہ آرڈر آ چکے تو آپ کو کہاں سے ملے گی ۔اپوزیشن کا واویلا ہے کہ حکومت نے عوام کی زندگی بچانے کے لیے ضروری اقدامات اٹھانے میں غیر معمولی تاخیر کی۔ یہ کچھ غلط بھی نہیں ۔ موجودہ صورت حال واقعی مایوسی کن ہے۔ ویکسین جس رفتار سے لگائی جا رہی ہے پورے عوام تک پہنچنے میں دس سال لگیں گے۔ روزانہ 70 ہزار افراد کو ویکسین لگ رہی ہے ایک ماہ میں زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ 82 ہزار افراد کے لگنے کی گنجائش ہے۔ دو کروڑ 18 لاکھ 42 ہزار افراد کو سال بھر میں لگائی جا سکے گی ۔ 23 کروڑ افراد کو ویکسینیشین کے لیے لگ بھگ 10 سال کا عرصہ چاہئے۔ اگر حکومت این آئی ایچ کو ویکسین بنانے کے وسائل اور اجازت دیتی ہے اور وافر مقدار میں تیار ہونا شروع ہوتی ہے تو ایک سال سے بھی قبل پوری آبادی کو یہ سہولت مل جائے گی ۔ اس بات کا بھی خیال ذہن میں ہونا چاہئے کہ ویکسینیشین صرف ایک بار کی ضرورت نہیں۔ ایک انسان کو زندگی میں کتنی بار ضرورت پڑے گی اس پر ابھی تحقیق جاری ہے ۔ تجارت اپنی جگہ اہم ہے لیکن پہلے یہ دیکھا جائے کہ انسان کی زندگی کتنی اہم ہے ۔ جب کہ یہاں ایک انسان کی زندگی کا سوال نہیں قوم کے ہر فرد کی زندگی کا سوال ہے۔ ملک میں سستی اور وافر مقدار میں ویکسین کا ذخیرہ موجود ہو ۔تیز رفتار اقدامات کے لیے پرائیویٹ طبی اداروں کو اس مہم میں شامل کر کے جنگی بنیادوں پر کام شروع کیا جائے، ہر چھوٹے بڑے، سرکای اور پرائیویٹ اسپتال میں ویکسین لگانے کا انتظام ہو گا، تب ہی اس وبا کو کنٹرول کیا جا سکے گا ۔ فی الوقت ضرورت ہے کہ ہر ادارہ اپنے ملازمین اور ممبران کے لیے انتظام کرے تو اس میں خاصی تیزی آئے گی ۔ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی ملک بھر میں واحد ادارہ ہے جس کے صدر محمد احمد شاہ نے لگ بھگ ساڑھے 7 ہزار ممبران اور ان کے رشتہ داروں، دوستوں کے لیے یہ سہولت مہیا کی۔ 50 ہزار سے زائد افراد اس سہولت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ ۔ ممبران اپنے خاندان کے علاوہ دوستوں اور اقرباء کو بھی فیض یاب کر رہے ہیں ۔ صاف ستھرے ماحول اور ایئرکنڈیشن ہال میں قائم اس ویکسین سینٹر میں بہترین تجربہ کار میڈیکل اور پہرا میڈیکل اسٹاف ممبران کے ساتھ انتہائی حسن سلوک کا مظاہرہ کرتا ہے۔ صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ، اپنی گورننگ باڈی کے ممبران اور آرٹس کونسل کے متحرک عملے کے ہمراہ پورا دن ویکسین سینٹر میں موجود رہتا ہے ۔کسی بھی قسم کی دشواری یا مشکلات کو فورا حل کیا جاتا ہے لیکن آنے والے شہری کو دقت نہیں ہونے دی جاتی ۔ آرٹس کونسل کی طرح ملک کے دیگر اداروں کو بھی اسی طرح کے انتظامات کرنے چاہئے اپنے اداروں میں ویکسین سینٹر قائم کریں ۔ یہ شکایات بھی موصول ہو رہی ہیں کہ بعض لوگ ویکسینیشین سے انکاری ہیں، ان کے پاس نہ لگانے کی بہت ساری تاویلیں اور دلائل ہیں ۔ میرا خیال ہے وہ کم عقل بھی ہیں اور بدقسمت بھی ۔ اپنی جان کے دشمن تو ہیں لیکن اپنے خاندان اقرباء اور دوست احباب کے بھی دشمن ہیں ۔ ہر ذی شعور اور صاحب عقل بالغ فرد کو یہ کوشش کرنا چاہئے کہ سب سے پہلے ویکسین لگے ۔یہی زندگی ہے اسی سے بچت ہے۔ ملک میں مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جب کہ 8 لاکھ سے زائد کرونا وائرس مریض موجود ہیں ۔امریکہ، اور سعودی عرب سمیت متعدد ممالک نے سفر کے لیے ویکسینیشین کو لازمی قرار دیا ہے۔ اب کوئی حج اور عمرے کی سعادت حاصل نہیں کر سکتا اگر اس نے ویکسین نہیں لگوائی۔