ایک اور حادثہ

عبدالجبارترین
ہمارا پیارا وطن اور ہماری قوم اس وقت انتہائی کھٹن دور سے گزر رہے ہیں ۔مقامی ،علاقائی اور بین الاقوامی حالات بہت زیادہ ہمارے قومی مفاد میں دکھائی نہیں دیتے ،مگر خطرناک بات یہ ہے کہ من حیث القوم ہمیں اس کی ذرہ برابر بھی پرواہ نہیں،کیونکہ ہم ایسے قومی معاملات کی الجھی ہوئی گتھیوں کو سلجھانے کا کام نہیں کرتے، بلکہ اپنے موجودہ قومی کلچر کے مطابق صرف ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا کرنیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں ،جس سے توجہ اصل مسائل سے ہٹ جاتی ہے اور ہم فروعی معاملات میں اپنی توانائیاں ضائع کرتے رہتے ہیں اس کے ساتھ اہم بات یہ ہے کہ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ کسی ایک فرد،گروہ یا ایک سیاسی پارٹی کا ذمہ نہیں ہے یہ ہماری قومی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے ملک اور قوم کی حفاظت کی خاطر تمام معاملات پر غوروفکر کریں،عام حالات میں جو بھی حکومت وقت ہوتی ہے اس کا زیادہ الزام اسی کو ہی دیا جاتا ہے جو کہ بہت حد تک صحیح بھی ہے کیونکہ حکومت وقت کا ہی کام ہوتا ہے کہ وہ قوم کی نمائندہ ہونے کی حیثیت سے ان تمام چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے ان کو سمجھے اور پوری قوم کو ساتھ لیکر ان مسائل کے حل کیلئے راستہ تلاش کرے ،اسی پس منظر میں ہم سات جون کو ہونے والے ہولناک ریلوے حادثہ کی بات کرتے ہیں جوکہ 65سے زیادہ معصوم جانیں نگل گیا اس سے بھی افسوسناک بات یہ ہے کہ حادثہ کی خبر پھیلتے ہی ہم نے اپنے موجودہ کلچر کے مطابق ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھرانا شروع کردیا مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں من حیث القوم ہم سب اس کے ذمہ دار ہیں یہ حقیقت ہے کہ ریلوے کی تباہی کی ذمہ داری موجودہ حکومت پر نہیں ڈالی جاسکتی مگر یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ موجودہ حکومت اس تمام خرابی کی ذمہ داری پچھلی حکومتوں پر ڈال کر بری الذمہ نہیں ہوسکتی کیونکہ پاکستانی قوم نے موجودہ حکومت کو اس لیے منتخب کیا تھا کہ پرانی حکومتوں کی خرابیاں دور کرے مگر سوال یہ ہے کہ ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا کر کیا موجودہ حکومت یا پچھلی حکومتیں اس سے جان چھڑا سکتی ہیں تو اس کا جواب نفی میں ہے، کیونکہ ایسے ہی حادثات جب ماضی قریب یا ماضی بعید میں ہوئے تھے تو اس وقت کی حکومتوں نے ایسے حادثات کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے تھے ؟ پھر موجودہ حکومت کو بھی تین سال ہونے والے ہیں اور ایسے ہی حادثات اس سے پہلے ہوچکے ہیں تو اس بارے میں موجودہ حکومت نے کیا اقدامات کیے تھے بہرحال اگر کچھ کیے بھی تھے ہمیں اس کا کوئی مثبت نتیجہ نظر نہیں آیا، حکومتوں کی تبدیلی اس لیے ہوتی ہے کہ لوگ برسراقتدار لوگوں سے خو ش نہیں ہوتے اور اپنی تقریر کے فیصلوں کی ذمہ داری نئی حکومت کو سونپ دیتے ہیں اگر نئی اور پرانی حکومتیں ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرتی رہیں گی تو عوام کے دکھوں کا مداوا کون کرے گ؟ا اگر سب حکومتوں کا رویہ یہ ہوکہ صرف موازنہ کرکے خوش ہوتے رہیں کہ کسی کے دور میں لوگ زیادہ اپنی جان سے گئے اور کسی کے دور میں کم ،فلاں کے دور حکومت میں زیادہ حادثات ہوئے اور فلاں کے دور حکومت میں کم ہوئے تو اس رویے کو کسی صورت میں بھی ایک مثبت اور تعمیری رویہ نیہں کہا جاسکتا کیونکہ ہر جان قیمتی ہے اور ہر فرد کی حفاظت حکومت وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے ،اگر موجودہ حکومت پرانی حکومتوں کے خامیاں اور خرابیاں تلاش کرلیتی ہے تو اس بنیاد پر الزام لگانے اور اپنی جان چھڑانے کی بجائے زیادہ بہتر ہے کہ وہ ایک تعمیری اور مثبت رویہ اپنائے ہوئے ان خامیوں کو دور کرے نظام کو بہتر کرے پھر عوام کے سامنے موازنہ رکھے تو عام لوگوں کو امید ہے کہ سمجھ آجائے گی ،میری التجا ہے کہ مختلف ادوار کی اموات کا موازنہ کرکے ہمارے زخموں پر نمک نہ چھڑکیں
خدارا لاشوں کی سیاست بند کرکے بقیہ حیات لوگوں کو سکھ کے ساتھ زندہ رہنے کا حق دیں ،ریلوے کے متعلق کچھ ایسے سوالات اور عوام ہیں جو فوری توجہ کے طالب ہیں ان عوامل کی وجوہات اور جوابات تلاش کرنے کی فوری ضرورت ہے اور ان کا تدارک بھی موجودہ حکومت کی ذمہ داری ہے
1:یہ مسلسل حادثات کیا کسی غفلت کا نتیجہ ہیں
2:کیا یہ حادثات کسی تحزیب کاری کا نتیجہ ہیں
3:اگر کسی مخصوص علاقے میں زیادہ حادثات ہو رہے ہیں تو اس پر غور کیا جائے کہ اس علاقے میں ریلوے ٹریک کیسی حالت میں ہے اور یہ حادثات کا موجب تو نہیں ہے
4:کسی مخصوص علاقے میں حادثات کی شرح زیادہ ہونے کی وجہ تحزیب کاری تو نہیں ہے
5:ان علاقوں میں کون سے تحزیب کار گروپ موجود ہیں جو اس طرح کے حادثات کا موجب بن سکتے ہیں
6:کیا ماضی کے حادثات کی روشنی میں ان علاقوں میں حادثات کی روک تھام کا کوئی موثر بندوبست کیا گیا
7:تحزیب کاری ہوئی تھی تو کیا ذمہ داروں کو پکڑا گیا تھا
8:اگر حادثات عملہ کی غفلت کی وجہ سے ہوئے تھے تو کیا متعلقہ لوگوں کوکوئی سزا دی گئی تھی
9:کیا ریلوے ورکشاپوں کے اندر ہونے والی بے ضابطگیوں کو کبھی چیک کیا گیا اور کسی ذمہ دار کو سزا دی گئی
10:کیا ہماری ریلوے لائنیں اور ریلوے کا سگنل سسٹم اتنی سکت رکھتا ہے ان پر بڑی تعداد میں ریل گاڑیاں چلائی جا سکیں
11:کیا ہماری ریلوے لائنیں اور سگنل سسٹم اس قابل ہے کہ اس پر تیز رفتار گاڑیاں چلائی جائیں
مندرجہ بالا تمام کام موجودہ حکومت کے کرنے کے ہیں مگر ہمارا قومی المیہ ہے کہ قوم کی بھلائی اور خدمت کے نعرے اور بھلائی کے دعوے صرف الیکشن کیلئے ہوتے ہیں اور الیکشن جیتنے کے بعد ہم صرف ترقیاتی فنڈ کا حصول ہی اپنی منزل سمجھ لیتے ہیں اور ان فنڈز کا حساب نہ کسی سے مانگا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی دینے کو تیار ہوتا ہے اگر حکومتی عہدیداروں سے پوچھ لیا جائے تو پوچھنے والے گنہگار اور قابل گردن زنی ٹھہرایا جاتا ہے اور اگر سابقہ حکومتی عہدیداروں سے پوچھ لیا جائے تو سیاسی انتقام کے طور پر لیا جاتا ہے اور اس طرح حساب کتاب سے جان چھوٹ جاتی ہے تمام ذاتی بدعنوانیوں کو سیاسی ڈھال سے چھپا لیا جاتا ہے اور یہی ہمارے نظام کی سب سے بڑی خرابی ہے یہاں حادثات میں شہید اور زخمی ہونیوالوں کے ورثاء کو گورنمنٹ کے خزانے سے لاکھوں روپیہ امداد کی صورت میں تقسیم کرکے یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ مسئلہ حل ہوگیا پھر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلی جاتی ہیں تا وقتیکہ ایک نیاحادثہ رونما نہ ہوجائے یہ ہمارہ قومی مزاج بن گیا ہے جس کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے ہمیں اپنی قوم کے مستقبل کیلئے ذمہ داری کا ثبوت دینا ہوگا اور من حیث القوم اپنے رویوں میں ایک مثبت اور تعمیری تبدیلی لانی ہوگی اور اگر حکومتی زعما اس کو شروع کردیں تو باقی قوم پر بھی انشاء اللہ بہت ہی مثبت اثر ہوگا اللہ تعالی میرے ملک و قوم کا حامی و ناصر ہو آمین