اسلام آباد: پیٹرولیم ڈویژن نے کہا ہے کہ اس نے مائع قدرتی گیس (ایل این اجی) کی درآمد کے لیے آذربائیجان کی سرکاری کمپنی کی پیشکش اس لیے قبول نہیں کی کیوں کہ دیگر چیلنجز کے علاوہ ان کی قیمت بھی زیادہ تھی۔
ایک بیان میں پیٹرولیم ڈویژن کا کہنا تھا کہ ‘سوکار کی پیشکش قطر پیٹرولیم کے ساتھ ہوئے معاہدے اور اسپاٹ ایل این جی کے ٹینڈرز کے ذریعے خریدے گئے کارگوز سے مہنگی تھی۔
خیال رہے کہ باکو میں پاکستانی سفیر بلال حئی نے گزشتہ ہفتے حکومت کو یکے بعد دیگرے خطوط ارسال کر کے کہا تھا کہ سوکار کے چیف آپریٹنگ آفسر نے ان سے رابطہ کر کے 60 روز کے لیے ایل این جی کی ایک کروڑ 20 لاکھ ڈالر اور 10 کروڑ ڈالر کی 2 کریڈٹ لائنز کے لیے اس کی پیشکش پر پیٹرولیم ڈویژن کی طویل خاموشی اور ردِعمل نہ دینے پر اپنی مایوسی کا اظہار کیا۔’
پیٹرولیم ڈویژن نے تیل کی مصنوعات کے لیے کریڈٹ لائنز کے حوالے سے بات نہیں کی البتہ یہ کہا کہ 3 بڑے معاملات کی وجہ سے ایل این جی کا دوطرفہ معاہدہ عملی جامہ نہ پہن سکا۔
ڈویژن کا کہنا تھا کہ پہلا یہ کہ فروری سے اگست 2021 تک کے ایل این جی جہاز کے لیے سوکار کی پیشکش 72 لاکھ ڈالر فی کارگو یا اس عرصے کے لیے اسپاٹ ٹینڈر کے بجائے 5 کروڑ 10 لاکھ ڈالر کے 7 کارگو شامل ہیں۔
اس طرح قطر پیٹرولیم کے معاہدے کی قیمت کے مقابلے میں سوکار کی پیشکش ڈیڑھ کروڑ ڈالر فی کنسائنمنٹس یا 7 کنسائنمنٹس کے لیے ساڑھے 10 کروڑ ڈالر زیادہ تھی۔
دوسرا یہ کہ سوکار کی 60 روز کی کریڈٹ لائنز کا ایل این جی کی قیمت پر ‘انتہائی معمولی مالی اثر ہوا لیکن ایک کارگو کی قیمت پر 2 لاکھ 60 ہزار ڈالر تک کا تجارتی اثر پڑا’۔
تیسرا سوکار کے ساتھ کچھ دیگر مسائل بھی تھے، جس نے بندگارہ کے چارجز کی مد میں اضافی ادائیگی کے طور پر ‘پی پی ایل’ کو 9 لاکھ ڈالر ادا نہیں کیے اور 7 دیگر ایل این جی سپلائرز کی ادائیگی ایک کروڑ 27 لاکھ ڈالر تھی جبکہ 15 اور 16 فروری کو ترسیل کے لیے مسابقتی بولی لگانے کے بعد سوکار کو 7 جنوری کو ایک کارگو سے نوازا گیا تھا۔
پیٹرولیم ڈویژن کا کہنا تھا کہ سوکار فروری 2021 کے لیے پی ایل ایل کی ضرورت سے فائدہ اٹھانا چاہتی تھی اور اس نے موقع سے فائدہ اٹھا کر مہنگے کارگوز فروخت کرنے کی کوشش کی۔