قومی سلامتی کشمیر کی آزادی کے بغیر ممکن ہے؟

وقت گزرنے کے ساتھ زخم کے اثرات میں رفتہ رفتہ کمی آجاتی ہے لیکن کشمیر میں 72سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی بھارتی کامیابی دور دور تک نظر نہیں آرہی ہے اور کشمیری اپنی جدوجہد ِ آزادی کا آگ اور خون میں لپٹے ہوئے بوجھ کو اکیلے ہی کھنچ رہے ہیں۔ کہا جارہا ہے 5فروری کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کا دن ہے لیکن جنوری میں ملک کی بقا اور سلامتی کی نئی قومی سلامتی پالیسی میں یہ پیغام واضح طور پر دیا گیا ہے کہ ہماری قومی سلامتی معاشی ترقی کی مرہونِ منت ہے اور یہ الفاظ استعمال نہیں کیے گئے کہ اب کشمیر سے ہمارا واسطہ قومی سلامتی جیسا نہیں ہے لیکن حقیقت میں اس پالیسی میں ایسا ہی کچھ نظر آرہا ہے۔ پاکستان نے پوری دنیا کو بتا دیا ہے کہ ہماری ساری توجہ ہمارے معاشی حالات بہتر بنانے اور معیشت کو مضبوط کرنے پر مرکوز ہوگی۔ کشمیریوں کو مزاحمتی تحریک کی مدد کے لیے کسی اور ملک کو ڈھونڈنے کی ضرورت ہے جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ آزادی کے متوالے اپنی آواز دنیا تک پہنچا سکیں۔
ایک سال قبل 5اگست 2021 کو پاکستان سمیت پوری دنیا کے اخبارات میں مجاہدہ آسیہ اندرابی کے اس بیان نے پوری دنیا کو حیران کر دیا تھا کہ عمران حکومت نے کشمیریوں کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ اس بیان کے وقت دنیا کے مختلف اخبارات کے نمائندوں نے بتایا کہ آسیہ اندرابی یہ سب کہتے ہوئے آنسوئوں سے رو رہی تھیں۔ ہماری حکومت کا کہنا ہے کہ معاشی ترقی کی اس دوڑ میں جو بھی رکاوٹیں آئیں گی یا تو ان کو ہٹا دیا جائے گا یا ان سے راستہ بدل کر معاشی ترقی کے اہداف حاصل کیے جائیں گے۔ چونکہ ہماری معاشی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمارے ہمسایہ ملک کے ساتھ کشیدہ تعلقات ہیں تو اس نئی پالیسی کے مطابق ان کشیدہ تعلقات میں بہتری کے لیے متنازع معاملات کو ایک طرف رکھ کر معاشی ترقی کا سفر طے کیا جائے گا۔ اس دوڑ میں ہم اب کشمیریوں کو پہلے جیسی اخلاقی، سیاسی یا سفارتی مدد نہیں دے سکیں گے۔ اس لیے اب کشمیریوں کو اپنی حق خود ارادی کی جدوجہد خود ہی لڑنی ہے اور اسے جاری یا ختم کرنے کے بارے میں خود ہی فیصلہ کرنا ہے۔ کشمیریوں کی لمبی جدوجہد اور بے بہا قربانیوں کو دیکھتے ہوئے یہ آسانی سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی جنگ پاکستان کی مدد یا اس کے بغیر بھی جاری رکھیں گے۔ لیکن اس سے پاکستان کی تمام ہی سرحدیں غیر محفوظ نظر آرہی ہیں۔ بھارت کے لیے اب کشمیر نہیں بلکہ ارونچل پردیش زیادہ خطرنا ک محاذ بن چکا ہے جہاں اس نے بھاری اسلحہ پہنچا دیا ہے۔ کشمیر سے فارغ ہو نے کے بعد بھارت نے بلوچستان میں امن امان خراب کرنے لیے کارروائی میں شدت اختیار کی جس کی وجہ سے جنوری 2022 کے آغاز سے بلوچستان بدامنی کا شکار رہا ہے اس سلسلے میں معلوم ہوا ہے کہ چند دن قبل ہونے والے دہشت گرد حملوں کا صفایا کرنے میں 70گھنٹے لگ گئے اور وہاں سے ناٹو اور امریکا وبھارت کا اسلحہ بھی بھاری تعداد میں ملا ہے جس یہ اسلحہ پاکستانی فورسز سے مقابلے کے دوران بھی دہشت گردوں کو پہنچایا جاتا رہا ہے جس کی وجہ سے آپریشن کو طول دینے کی ضرورت رہی ہے۔
اس سلسلے میں بھارتی میڈیا نے پاکستان کے خلاف خوب زہر اگلا اور پاکستانی افواج کی شہادتوں کو خوب بڑھا چڑھا کر بیان کرتا رہا ہے جس کے بعد سیکرٹری داخلہ کو وضاحتی بیان جاری کرنا پڑا جس میں شاید درست شہادتوں کا ذکر نہیں تھا۔ جنوری 2022 کے آغاز سے بلوچستان میں بدامنی شروع ہو چکی تھی۔ اس پورے کھیل میں افغانستان کا ذکر تو کیا گیا لیکن ایران کو پورے میڈیا نے چھپا کر رکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت ایران کی مدد کے بغیر بلوچستان میں دہشت گردی کر ہی نہیں سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بلوچستان میں چند ہیلی کاپٹرز کو حملے کے دوران بھی اسلحہ کی سپلائی کرتے دیکھا گیا اور وہاں بھارت کے لیے اس طرح سے مدد کرنا بہت مشکل اور ایران کے لیے آسان تھا۔ چین اور ایران کے درمیان سی پیک معاہدے کے بعد پاکستان اور ایران کے تعلقات میں بہتری کے کچھ آثار نظر آئے تھے لیکن گزشتہ دوماہ سے ایران اور دیگر اسلامی ممالک کے بہتر تعلقات کے باوجود سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے ایران کے فراہم کر دہ ڈرون، میزائل اور دیگر ہتھیاروں سے حملہ کیا اور اب پاکستان کے خلاف بلوچستان میں کارروائی ایران کی مدد کے بغیر ناممکن ہے اور اس کو فوری روکنے کی ضرورت ہے۔ ایران نہ صرف سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور پاکستان کے خلاف بدامنی کی کارروائی میں ملوث رہا ہے بلکہ وہ آذربائیجان اور آرمینیا کی جنگ میں یورپی یونین اور فرانس کا اسلحہ بھی آرمینیا پہنچانے کا مقدس فریضہ بھی ادا کر چکا اور عالمی اخبارات نے آرمینیا اور ایران کے اتحاد کا ذکر اس وقت اپنی بڑی بڑی سرخیوں کیا تھا۔ یہ سلسلہ اس وقت رکا جب ایران کے آزری عوام نے ایرانی حکومت کے خلاف بڑے احتجاج کی تیاری شروع کر دی تھی جس سے خوفزدہ ہو کر ایران نے آرمینیا کو اسلحہ سپلائی کرنے والے جہازوں کے لیے اپنی ہوائی گزر گاہ بند کر دی تھی۔
جہاں تک کشمیریوں کا تعلق ہے تو وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ حق خودارادیت کی اس جدوجہد کو ترک کرنا آخر میں کشمیری تشخص کا خاتمہ کر سکتا ہے۔ پہلے ہی نسل کشی کے بین الاقوامی ماہرین اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ موجودہ بھارتی ظالمانہ اقدامات سے کشمیریوں کی نسل کشی کی ابتدا ہوگئی ہے۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم جینوسائیڈ واچ کے ایک ماہر نے امریکی کانگریس میں حال ہی میں اپنے بیان میں کہا ہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں نسل کشی کا عمل اور اس کے واضح نشانات دکھائی دینے لگے ہیں۔ اسی رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت ایسے ہی اقدامات اپنی دوسری ریاست آسام میں بھی کر رہی ہے۔ لیکن ہماری قومی سلامتی پالیسی میں کشمیر کو نظر انداز کرنا پاکستان کی بقا اور سلامتی کے خلاف سازش ہے۔
کشمیریوں کو اپنی جدوجہد کے ان مشکل ترین حالات کا مقابلہ کیسے کرنا چاہیے جبکہ ان کا سب سے بڑا حمایتی پاکستان اپنی معاشی مشکلات کی وجہ سے ان کا ساتھ دینے سے قاصر دکھائی دیتا ہے اور بھارت انہیں ان کی اکثریتی ریاست میں اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ ان کربناک حالات میں کشمیریوں کے لیے بہت سارے راستے ہیں۔