ہمارا منقسم و متنازع جمہوری نظام

ہماری قوم ایک سے زائد حصوں میں بٹی ہوئی ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ پاک وطن کا جمہوری نظام بھی منقسم ہے، حالانکہ ہمارے اسلامی جمہوریت پاکستان کو قائم ہوئے 74 سال گزر چکے ہیں۔ دوسرے اعداد میں مطلب یہ ہے کہ ہمارا پاکستان 7 اپریل 2022 کو 74 سال 7 ماہ 24 دن کا ہوچکا ہے۔ رواں سال 14 اگست کو ہم سب ان شا اللہ اس کی 75 ویں یا ڈائمنڈ جوبلی سالگرہ منائیں گے۔ بات ہورہی ہے قوم کے تقسیم ہونے کی۔ ویسے تو ہم سب پاکستانی ہیں۔ اس لحاظ تو ہم ایک قوم ہیں مگر بدقسمتی سے ملک فرقہ بندی پر مشتمل اور مختلف سیاسی جماعتوں کے بنائے ہوئے سیاسی جمہوری نظام نے ہم سب کو تقسیم کیا ہوا جس کے نتیجے میں ہم سب مسلمان ہونے کے باوجود ایک مسلمان ہیں اور نہ ہی ایک متحد پاکستانی کہلانے کے قابل ہیں۔ حال ہی ہماری سیاسی جماعتوں نے یہ بھی کیا کہ ہم اپنے مرضی کے نظام حکومت کے قیام کے لیے سیاسی مخالفین کا مجموعہ تو بن سکتے ہیں مگر جمہوریت کے استحکام، ملک کی بقا اور آئیڈیل نظام کو بنانے اور فروغ دینے کے لیے متحد نہیں ہو سکتے۔
پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نواز، جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن اور دیگر مختلف نظریات رکھنے والی سیاسی پارٹیوں پر مشتمل متحدہ اپوزیشن نے متحد ہوکر صرف اپنے مفاد اور امریکا سمیت مغربی ممالک کی خواہشات کی تکمیل کے لیے منتخب جمہوری اور آئینی حکومت کے ساتھ مسلسل جو رویہ رکھا اس کے نتیجے آئینی جمہوری دور میں خلل، مالی وسائل اور وقت کے ضیاع کے سوا کچھ بھی تو حاصل نہیں ہوا۔ اگر متحدہ اپوزیشن کی نظر میں اس خواہشات کی تکمیل کی تحریک سے کوئی فائدہ ہوا ہے تو وہ بھی قوم کو بتایا جائے، متحدہ اپوزیشن اگر پوری قوم کو یہ بات نہیں بتاسکتی تو کم از کم اپنی پارٹیوں کی سطح پر تو اس تحریک کے عوامی یا انفرادی فائدے کی وضاحت کرے۔ بہرحال بحیثیت کالم نویس میں یہ سمجھتا ہوں کہ متحدہ اپوزیشن کی مہم سے پوری قوم پر یقینا ملک کے مفاد پرست سیاست دانوں کے چہرے تو عیاں ہوگئے۔ جبکہ عوام کو درمیانی مدت کے انتخابات کے لیے اپنے ناپسندیدہ نمائندوں کو انتخابی عمل سے باہر رکھنے کے لیے چننے کا موقع بھی ملے گا، جس کے نتیجے میں۔ جمہوری عمل کے تسلسل کا بڑا فائدہ سب کے سامنے آجائے گا۔
میں یہاں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ عمران خان کی جماعت اور سیاست سے مجھے محض اتنی ہی دلچسپی ہے جتنی دیگر سیاست دانوں اور ان کی پارٹیوں سے ہے۔ میری اس تحریر کا مقصد بھی یہ ہے آخر اپوزیشن کی مذکورہ جماعتوں کے اتحاد سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کی سیاست کا اصل مقاصد کیا ہے؟ اور اب تک ان کی سیاست سے عام افراد کو کیا فائدے حاصل ہوئے ہیں؟ رہی بات ان جماعتوں سے ہونے والے نقصان کی تو اس کا سب ہی کو وقتا فوقتا علم ہوتا رہتا ہے۔
میرا سوال یہ بھی ہے کہ کیا اب منتخب ہونے والی نئی حکومتیں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بیروزگاری اور بدحالی کا خاتمہ کرکے مجموعی ملک کے حالات کو خوشحالی میں تبدیل کردیں گی۔ علاوہ غیر جمہوری دور کے کسی بھی ادوار میں ملک کے بیرونی قرضوں، مہنگائی اور بیروزگاری کی شرح میں کمی اور استحکام بھی نوٹ نہیں گیا جبکہ ترقیاتی اور تخلیقی کام بھی صرف فوجی ادوار میں ہوتے ہوئے قوم نے دیکھے۔ لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ میں جمہوری نظام کے بدلے میں غیر جمہوری یا آمرانہ نظام میں حکومت کا حامی ہوں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لیے میں کیوں کر غیر جمہوری نظام حکومت کی خواہش رکھ سکتا ہوں۔ لیکن میری خواہش یہ ضرور ہے کہ ہمارا ملک ہر لحاظ سے اسلامی ضرور بنے جس کے لیے عمران خان نے کم ازکم نیت تو کرلی تھی جبکہ انہوں نے امریکا کی خواہشات پوری کرنے سے واضح طور پر انکار کردیا تھا اور اب امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر امریکا کے مطالبات سے انکار کرنے لگے تھے، کہ ان کی حکمرانی پر سوال اٹھ گئے۔
بہرحال دنیا میں انصاف کی فراہمی کے حوالے سے ایک سو 28 ویں نمبر پر موجود پاکستان کی عدلیہ نے قومی اسمبلی کے متنازع معاملات جب پر ازخود نوٹس لیا تو ہر طرف اطمینان ہوا کہ اب ملک کی سیاسی صورتحال بہتر ہوجائے گی۔ عدالت ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے ساتھ قومی اسمبلی میں اکثریت ثابت کرنے کے لیے کی جانے والی ہارس ٹریڈنگ اور وزیر اعظم عمران کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے محرکات کا بھی جائزہ لے گی اور ایک جامع فیصلہ سنائے گی۔ لیکن عدالت نے صرف 3 اپریل کے قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ جس کے تحت عدم اعتماد کی قرار داد مسترد کی گئی اور بعد ازاں وزیراعظم کی ایڈوائز پر صدر مملکت کی طرف سے اسمبلی تحلیل کرنے کے حکم اور ملک میں تین ماہ بعد نئے انتخابات کرانے سے متعلق الیکشن کمیشن کو ہدایت تک محدود رہ کر ان ہی تمام احکامات کو کالعدم قرار دے دیا۔ یقینا عدلیہ نے آئین کے مطابق فیصلہ کیا ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ عدالت کی نظر میں دیگر معاملات غیر ضروری اور ان پر عدالتی کارروائی وقت کا ضیاع ہو۔ میں تو اس بات ہر یقین کرنے کا پابند ہوں کہ ہماری عدلیہ کا فیصلہ درست اور آئین اور قانون کے مطابق ہے۔ مجھے یہ بھی یقین ہے کہ اس فیصلے پر ہماری عدلیہ کسی عالمی ادارے اور ملکوں کے دباو کو بھی خاطر میں نہیں لائی ہوگی۔اب رہی بات امریکا کی کہ وہ ان ملکوں کو اپنے راستے سے ہٹانے Regime change یا تبدیلی حکومتی پالیسی کے تحت کرتا ہے۔ بھلا پاکستان اور یہاں کو حکمرانوں یا عمران خان سے کیا تعلق ہوسکتا ہے۔ ؟ بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ absolutely not یا قطعی نہیں۔