اسلام آباد ہائیکورٹ میں حارث اسٹیل ملز اسکینڈل سماعت کیلئے مقرر

اسلام آباد ہائیکورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے 2007 میں دائر 23 جعلی بینک اکاؤنٹس سے متعلق 9 ارب روپے کے حارث اسٹیل ملز اسکینڈل ریفرنس کی سماعت دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

تفتیش کاروں کے مطابق حارث اسٹیل کے ڈائریکٹر شیخ افضل نے شریک ملزمان محمد منیر، علی اعجاز، عابد رضا اور عرفان علی کے ساتھ بینک آف پنجاب (بی او پی) کے اس وقت کے صدر ہمیش خان اور دیگر عہدیداروں کی ملی بھگت سے جعلی دستاویزات، ضمانتیں، ضمانتیں استعمال کیں اور فرضی افراد کے نام پر 23 ‘جعلی’ کھاتے کھولے اور 2005 اور 2007 کے درمیان اسٹیل ملز اور اس کے دو ذیلی اداروں کے لیے 9 ارب روپے کے قرضے حاصل کیے۔

آئی ایچ سی کے رجسٹرار آفس نے کیس جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل دو رکنی بینچ کے سامنے 12 اگست کو سماعت کے لیے مقرر کیا ہے۔

ہائی کورٹ نے 2008 میں اس معاملے کی سماعت کی تھی لیکن 31 جولائی 2009 کو عدالت کو غیر آئینی قرار دیا گیا اور کیس لاہور ہائی کورٹ (ایل ایچ سی) کو منتقل کر دیا گیا جبکہ چند سال بعد کیس دوبارہ آئی ایچ سی کو منتقل کر دیا، کچھ ملزمان معاملہ سپریم کورٹ میں لے گئے جس نے اسے 2017 میں آئی ایچ سی کو واپس بھیج دیا۔

2007 میں نیب نے 9 ارب روپے کے سکینڈل میں 12 افراد بشمول بی او پی کے 6 افسران اور 6 دیگر کے خلاف ریفرنس دائر کیا تھا۔

ریفرنس دائر ہونے کے بعد سابق بی او پی صدر ہمیش خان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈال دیا گیا تھا لیکن وہ جولائی 2008 میں ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

اس کے بعد سپریم کورٹ نے حکومت کو بینک کے سابق صدر کو انٹرپول کے ذریعے گرفتار کرنے کی ہدایت دی، اس کے بعد وہ پاکستان کی درخواست پر دسمبر 2009 میں امریکا میں پکڑے گئے۔

نیب اور بی او پی کی انٹرنل آڈٹ ٹیم نے بعد میں ملزمان کو حارث اسٹیل ملز اسکینڈل کے مرکزی مجرم کے طور پر شناخت کیا۔ نیب کی تفتیش کے مطابق شیخ افضل جعلی سٹیل ملز کے مالک تھے جو ان کے بیٹے حارث کے نام سے منسوب تھے۔

یہ معاملہ مسلم لیگ (ق) کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ بی او پی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ کامران رسول (جنرل مشرف کے دور حکومت میں پنجاب کے چیف سیکریٹری) نے 2003 میں ہمیش خان کے تقرر میں مدد کی تھی۔

بی او پی رپورٹ عدالت عظمیٰ کی ہدایت پر ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس کی جانب سے سے کی گئی تفتیش پر مبنی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ڈائریکٹر مغیس شیخ اور خرم افتخار بھی اس اسکینڈل میں اہم کردار ادا کرتے رہے وہ کمپنی کے لیے ’کریڈٹ اپروولز‘ پر مہر لگاتے رہے۔