آئی ایم ایف ملازمین پاکستان کوگرے لسٹ سے نہیں نکال سکتے

آئی ایم ایف کے پاکستان میں ملازمین کی یہی کوشش ہے ملک کی معیشت کو ایسا بنا دیا جائے جس سے عالمی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ سے نکل جائے لیکن اس لسٹ سے کسی مسلم ملک کا آسانی سے نکلنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے جس سے امریکا خوش نہ ہو۔ اب تو اس لسٹ میں متحدہ عرب امارات کو بھی شامل کر لیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے سلامتی کونسل میں روس کے خلاف ووٹ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ پاکستان کو اکتوبر 2018 میں اس منحوس لسٹ میں سابق وزیرِ خزانہ عبدالحفیظ شیخ کے دور میں ڈالا گیا تھا یا اگر یوں کہا جائے کہ ان کے حکم پر ڈالا گیا تھا تو بہت زیادہ درست ہو گا۔ پاکستان کی جانب سے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت سے متعلق اب تک کے اقدامات کا جائزہ لینے کے بعد پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن اکتوبر 2021 کے اجلاس میں بھی پاکستان کو گرے لسٹ سے نہیں نکالا گیا ہے۔
فروری 2021 کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ پاکستان کو تجویز کردہ 27 میں سے 3 سفارشات پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اس لیے اسے جون 2021 تک گرے لسٹ ہی میں رکھا جائے جس کے بعد اس پر دوبارہ نظر ثانی کی جائے گی۔ یاد رہے کہ اکتوبر 2020 کے اجلاس میں ایف اے ٹی ایف نے 6 سفارشات پر عمل درآمد کو غیر اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے چار ایسے شعبوں کی نشاندہی کی گئی تھی جن میں مزید کام درکار تھا اور اس کے لیے پاکستان کو فروری 2021 تک کا اضافی وقت فراہم کیا تھا۔
اکتوبر 2021 کے اجلاس میں پاکستانی حکومت کی جانب سے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے خلاف اقدامات کے تناظر میں اب تک کی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا اور فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستان کو شدت پسندوں کی مالی امداد کی روک تھام کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان سے کہا گیا تھا کہ! پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے اس کا عملی مظاہرے کریں کہ وہ دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق جرائم کی نشاندہی کر کے نہ صرف اس کی تحقیقات کر رہے ہیں بلکہ ان جرائم میں ملوث افراد اور کالعدم دہشت گرد تنظیموں اور ان کے لیے کام کرنے والے افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جا رہی ہے۔ 2 اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ دہشت گردوں کی مالی امداد میں ملوث افراد اور تنظیموں کے خلاف جو قانونی کارروائی کی جائے اس کے نتیجے میں انہیں سزائیں ہوں جس سے ان جرائم کا مکمل خاتمہ ممکن ہو پائے۔ 3 اقوام متحدہ کی فہرست میں نامزد دہشت گردوں اور ان کی معاونت کرنے والے افراد کے خلاف مالی پابندیاں عائد کی جائیں تاکہ انہیں فنڈز اکھٹا کرنے سے روکا جا سکے اور ان کے اثاثوں کی نشاندہی کر کے منجمد کیا جائے اور ان تک رسائی روکی جائے۔ ایف اے ٹی ایف کا 2021 کا اجلاس 22 سے 25 فروری تک جاری رہا۔ اس اجلاس میں 205 رکن ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے 205 مندوبین نے آن لائن شرکت کی۔
فروری2021 کے اجلاس سے قبل پاکستان اینٹی منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنڈنگ روکنے کے لیے تمام اقدامات کر رہا ہے اور پاکستان کو گرے لسٹ نہیں کیا جانا چاہیے۔ لیکن اس کے باوجود امریکاکے دباو پر پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کیا گیا ہے۔ اب بھی ایف اے ٹی ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اسمگلنگ، منشیات اور فلاحی تنظیموں پر خصوصی توجہ دینا ہو گی خاص کر دولتِ اسلامیہ، القاعدہ، جماعت الدعو، فلاح انسانیت فاونڈیشن، لشکر ِ طیبہ، جیش محمد، حقانی نیٹ ورک اور طالبان سے وابستہ افراد اور ان جیسے دہشت گرد گروہوں کا خاتمہ کیا جائے۔ اقوام متحدہ کے تحت کالعدم تنظیموں پر پاکستان میں بھی پابندی ہے۔ ان کے رہنماوں کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل تھے، انہیں ہتھیار کے لیے لائسنس نہیں دیے جاتے اور ان کے اثاثے منجمد ہیں۔ نئے آرڈیننس کے تحت ہم نے ان کالعدم تنظیموں کو انسدادِ دہشت گردی کے قانون کے تحت کالعدم قرار دیا گیا ہے۔ اگر پاکستان کے مغربی ممالک سے سیاسی تعلق بہتر ہو جائیں گے تو اس معاملے میں بھی لچک دکھائی دے گی۔
امریکا پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالنا چاہتا تھا وہ اس نے ڈال رکھا ہے۔ سال 2020 اکتوبر میں ہونے والے اجلاس میں بھی ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان کو گرے لسٹ میں ہی رکھا گیا تھا۔ اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ ماضی میں ادارے کی جانب سے پاکستان کو تجویز کردہ 27 میں سے 6 سفارشات پر مکمل عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کو فروری 2021 تک گرے لسٹ میں ہی رکھا جائے۔ دنیا بھر میں منی لانڈرنگ اور شدت پسندوں کی مالی امداد روکنے کے لیے ایف اے ٹی ایف کی جانب سے 40 سفارشات مرتب کی گئی ہیں اور ان سفارشات پر عملدرآمد کو مدنظر رکھتے ہوئے رکن ممالک کو گرے یا بلیک لسٹ میں شامل کیا جاتا ہے۔
2018 میں جب پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا تو پاکستان کے مالی نظام اور قوانین کو ایف اے ٹی ایف کی 40 میں سے 13 سفارشات کے مطابق پایا گیا جبکہ باقی 27 سفارشات پر عمل درآمد کرنے کے لیے پاکستان کو ایک سال کا وقت دیا گیا تھا۔ ایف اے ٹی ایف کے مطابق فروری 2020 تک پاکستان صرف 14 سفارشات پر ہی عمل درآمد کر سکا لہذا پاکستان کو اکتوبر 2020 تک کا مزید وقت دیا گیا تاکہ باقی 13 سفارشات پر بھی عمل درآمد کروایا جا سکے۔ لیکن اکتوبر 2020 میں ہونے والے ایف اے ٹی ایف کے اجلاس نے 6 سفارشات پر عمل درآمد کو غیر اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے چار ایسے شعبوں کی نشاندہی کی جن میں مزید کام درکار ہے اور اس کے لیے پاکستان کو فروری 2021 تک کا اضافی وقت فراہم کیا۔ یہ فراڈ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک امریکا پاکستان کو اپنا غلام نہیں بنا لیتا جس کی ہر سطح پر اس کی کوشش جاری ہے۔
گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے پاکستان نے بہت سے مشتبہ دہشت گردوں اور دہشت گردی میں ملوث افراد کی گرفتاریاں بھی کی ہیں۔ اسی سلسلے میں اپریل 2019 میں کالعدم تنظیم جماعت الدعوہ سے منسلک تنظیموں اور افراد کو بھی گرفتار کیا گیا اور سزائیں سنائی گئیں۔ جولائی 2019 میں کالعدم تنظیم جماعت الدعوکے سربراہ حافظ سعید کو گرفتار کیا گیا اور پھر ان پر فرد جرم بھی عائد کی گئی جبکہ گزشتہ سال نومبر میں لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے حافظ سعید کو دہشت گردی کی مالی معاونت کے الزام میں ساڑھے 10 سال قید کی سزا سناتے ہوئے ان کے تمام اثاثے ضبط کرنے کا حکم دیا تھا۔ ایف اے ٹی ایف کے حکم کے مطابق 2020 جنوری میں لاہور ہی کی انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے کالعدم تنظیم لشکر طیبہ کے کمانڈر ذکی الرحمن لکھوی کو دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے کے جرم میں پانچ سال قید اور تین لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔یا د رہے کہ ذکی الرحمن لکھوی تین مرتبہ پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں۔ شاید ہماری حکومت کو یہ بات معلوم ہو کہ اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا لیکن بین الاقوامی سطح پر ساکھ متاثر ہوتی ہے اور کسی حد تک بینکوں کو نئے روابط بنانے میں دشواری ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ 2008 سے 2015 تک پاکستان مختلف اوقات میں گرے لسٹ میں شامل رہا ہے اور کچھ عرصے تک بلیک لسٹ میں بھی شامل رہا ہے۔ لیکن پاکستان جیسے ملک کو کو ئی فرق نہیں پڑتا لیکن حکمرانوں کا خوف کون ختم کر سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭