نیاز لگی بٹنے

برصغیر پاک و ہند کے مسلم گھرانوں میں یہ رواج تھا اور شاید اب بھی ہے کہ جب انہیں اپنے دشمن کے مقابلے میں کوئی کامیابی ملتی یا کوئی مصیبت آن پڑتی تو اسے ٹالنے کے لیے بچوں میں نیاز بانٹی جاتی تھی اور ایک بزرگ گلی میں کھڑے ہو کر آواز لگاتا تھا لڑکو، لڑکیو نیاز بٹ رہی ہے آکے لے جائو آواز سنتے ہی بچوں کا ایک ہجوم اکٹھا ہوجاتا اور چھینا جھپٹی شروع ہوجاتی۔ دل جلے نیاز بٹنے کے اس عمل پر ایک نہایت بیہودہ محاورہ کستے تھے جسے یہاں ضبط تحریر میں نہیں لگایا جاسکتا۔ وزیراعظم عمران خان نے چند روز پہلے قوم سے خطاب کے دوران پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں جس رعایت کا اعلان کیا ہے ان کے حریف اسے بھی نیاز بٹنے سے تعبیر کررہے ہیں اور اس پر وہی بیہودہ محاورہ کس رہے ہیں جو واضح طور پر اہانت کے نئے قانون (پیکا) کی زد میں آتا ہے اور پولیس انہیں پکڑ کر پانچ سال کے لیے اندر کرسکتی ہے، لیکن اس قانون کو لاگو ہونے سے پہلے ہی اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا گیا ہے اور فاضل عدالت کیس کی سماعت کے دوران جس قسم کے ریمارکس دے رہی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ
یہ نونہال پنگھوڑے میں ہی دم توڑ جائے گا
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے
بہرکیف نیا قانون رہے نہ رہے، نیاز تو بٹتی رہے گی اور کہا گیا ہے کہ یہ نیاز آئندہ انتخابات تک چلے گی۔ نیاز بٹنے کی ایک بنیادی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد کا ڈرائو دے رکھا ہے، کہا جارہا ہے کہ یہ نمبروں کی گیم ہے۔ اپوزیشن کا دعوی ہے کہ اس نے نمبر پورے کرلیے ہیں بلکہ مطلوبہ تعداد سے زیادہ نمبر اس کے پاس ہیں بس اشارے کی دیر ہے جب کہ اشارہ کرنے والے خود تذبذب کا شکار ہیں۔ ہمارے دوست کہتے ہیں کہ اپوزیشن ہو یا حکومت دونوں اشارہ کرنے والوں کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ اپوزیشن مثبت اشارے کی منتظر ہے تو حکومت منفی اشارے کی آس لگائے بیٹھی ہے۔ یار لوگوں کا کہنا ہے کہ منفی اور مثبت مل جائیں تو بڑا دھماکا بھی ہوسکتا ہے۔ اس صورت حال میں نیاز بانٹنا ضروری ہوجاتا ہے لیکن آئی ایم ایف نے تو ہاتھ پائوں باندھ رکھے ہیں وہ نیاز بانٹنے کی اجازت دے گا تو نیاز بٹے گی ورنہ سارا کھیل بگڑ جائے گا۔ اب ہمیں نہیں معلوم کہ خان صاحب نے پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں جس رعایت کا اعلان کیا ہے اس کی منظوری آئی ایم ایف سے لی ہے یا نہیں۔ آئی ایم ایف کا تو ایجنڈا ہی یہ ہے کہ عوام کا زیادہ سے زیادہ خون نچوڑا جائے اور انہیں سسکا سسکا کر مارا جائے۔ عوام کو ریلیف دینا یا غربت کم کرنا بہرکیف آئی ایم ایف کے پروگرام میں شامل نہیں ہے۔ خان صاحب نے پاکستانی معیشت آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھی ہوئی ہے وہ اس کی مرضی کے بغیر ایک دھیلا بھی خرچ نہیں کرسکتے۔ پھر یہ دریا دلی کیسی؟ ظاہر ہے وہ ایک ہاتھ سے دیں گے دوسرے ہاتھ سے واپس لے لیں گے اور ملک میں ٹیکسوں کا نیا سیلاب آجائے گا۔ بجلی کی قیمت میں پانچ روپے کمی کی نوید سنائی گئی ہے جب کہ متعلقہ اتھارٹی نے ساڑھے تین روپے فی یونٹ اضافے کی تجویز پیش کردی ہے۔ اس کے علاوہ گیس سلنڈروں کی قیمتیں بھی بڑھادی گئی ہیں۔
خان صاحب کے خطاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے سال ڈیڑھ سال پہلے ہی انتخابی مہم شروع کردی ہے جب کہ اپوزیشن ابھی تحریک عدم اعتماد اور لانگ مارچوں میں پھنسی ہوئی ہے۔ تحریک عدم اعتماد پیش ہوتی ہے یا نہیں۔ اک معما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ البتہ پیپلز پارٹی نے لانگ مارچ کا آغاز کردیا ہے۔ بلاول کی بہنوں نے ان کے بازو پر امام ضامن باندھ کر انہیں اس مہم پر روانہ کیا ہے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی بھی سندھ حکومت کی لوٹ مار کے خلاف لانگ مارچ کررہی ہے۔ ایسے میں ایک دوست نے فیس بک پر یہ پوسٹ لگائی ہے۔ پیپلز پارٹی سندھ کو لوٹ کر پاکستان کو بچانے نکلی ہے اور پی ٹی آئی پاکستان کو لوٹ کر سندھ کو بچانے نکلی ہے۔ قوم دونوں سے ہوشیار رہے۔ قوم سے یہی تو گلہ ہے کہ اس نے کسی مرحلے پر ہوشیار کا ثبوت نہیں دیا ورنہ سیاسی جماعتوں کے یہ ڈرامے کب کے ختم ہوچکے ہوتے۔
ہمارے دوست کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی تو آپس میں بہنیں ہیں ایک سندھ میں حکومت کررہی ہے تو دوسری وفاق میں براجمان ہے۔ دونوں میں ایک غیر تحریری معاہدہ موجود ہے کہ وہ ایک دوسرے کی حفاظت کریں گی اور کسی کو گرنے نہیں دیں گی یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن ساڑھے تین سال سے پی ٹی آئی حکومت گرانے کی کوشش کررہی ہے لیکن پیپلز پارٹی نے ان کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ وہ اپوزیشن میں گھس کر اس کے ہر منصوبے کو سبوتاژ کرتی رہی۔ مولانا فضل الرحمن چاہتے تھے کہ اپوزیشن کے تمام ارکان اسمبلی استعفے دے دیں تا کہ نئے انتخابات کی راہ ہموار ہوسکے اس کے لیے انہوں نے بڑی محنت کی۔ ابتدا میں میاں نواز شریف بھی اجتماعی استعفوں کے قائل نہ تھے لیکن حضرت مولانا نے انہیں آمادہ کرلیا۔ البتہ زرداری ان کے جال میں نہ آئے اور اجتماعی استعفوں کا معاملہ دھرے کا دھرا رہ گیا، پھر لانگ مارچ کا ایشو اٹھا اور پی ڈی ایم کے سربراہ کی حیثیت سے حضرت مولانا کی پوزیشن کوشش تھی کہ پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں میں اس پر اتفاق ہوجائے۔ پیپلز پارٹی بھی پی ڈی ایم کا حصہ تھی اس نے ایک نہ چلنے دی اور پی ڈی ایم کے تمام سربراہ اجلاس اس سلسلے میں بے نتیجہ رہے پھر پیپلز پارٹی اپوزیشن اتحاد سے الگ ہو گئی تو حضرت مولانا نے اپنے طور پر لانگ مارچ کا اعلان کردیا اور اس کے لیے 23 مارچ کی تاریخ بھی مقرر کردی۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم دن ہے اس دن قومی تعطیل ہوتی ہے اور اسلام آباد میں مسلح افواج کی پریڈ سے صدر مملکت خطاب کرتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن بھی اپنا لانگ مارچ لے کر اس روز اسلام آباد پہنچنا چاہتے ہیں، جب کہ بلاول اپنا لانگ مارچ لے کر چل بھی پڑے ہیں۔ ان کی منزل بھی اسلام آباد ہے۔ عمران حکومت نے سرکاری مشینری کو ہدایت کی ہے کہ بلاول کے راستے میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ کی جائے اور اسے اسلام آباد پہنچنے دیا جائے، جب کہ حضرت مولانا کے لانگ مارچ کے بارے میں ایسی کوئی ہدایت جاری نہیں کی گئی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دونوں میں سے کون سا لانگ مارچ ٹوپی ڈراما ثابت ہوتا ہے۔
لانگ مارچ ہو یا تحریک عدم اعتماد اس وقت حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ٹوپی ڈراما ہی چل رہا ہے اس ڈرامے کے اختتام ہی پر جیت ہار کا فیصلہ ہوگا پھر نیاز بٹے گی