
آرٹس کونسل میں، کشمیر کلچر شو۔ کشمیر فیسٹیول کی تجویز
بے معجزہ دنیا میں اْبھرتی نہیں قومیں۔۔۔۔۔۔۔۔ جو ضربِ کلیمی نہیں رکھتا وہ ہْنر کیا.۔۔۔۔ اقبال بعض فطرت پرستوں کے اس نظریہ کی نفی کرتا ہے کہ فطرت جس طرح نظر آتی ہے فنکار اسے بالکل اسی طرح پیش کرے۔ بلکہ وہ نقالی کے بجائے بامقصد فن کی تخلیق کا قائل ہے۔ فلسفہ خودی کو فن و ثقافت سے تعبیر کیا جاتا ہے جس میں قومی زندگی کے لیے ایک مضبوط پیغام پہنا ہے اور یہ خود ایک فن ہے۔ اقبال کے نزدیک فن کا اوّلین مطلوب خود زندگی ہے ، (یہاں زندگی سے مراد قومی زندگی لیا جائے )۔ اقبال فن کے لیے لازم قرار دیتا ہے کہ وہ ذہن انسانی میں ایک ابدی زندگی کے حصول کی لگن پیدا کرے۔گویا فن اور فن کار قوم کی امید ہے جو اپنے فن میں قوم کو ایسا پیغام دیتا ہے کہ مستقبل میں اس کا اختتام نہ ہو۔(ضرب کلیمی سے یہی مراد لی جا سکتی ہے ) اسی بنیاد پر تمام ماہرین اس پر متفق ہیں کہ فنون لطیفہ اور ادب ثقافت قوموں کی حیات ہے، کسی قوم کو ختم کرنا ہو تو اس کی ثقافت ادب و شاعری کوختم کیا جائے۔ بھارت نے حربی قوتوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ اب کشمیر کے گہرے اور مضبوط کلچر اور زبان و ادب پر کاری ضرب لگائی ہے۔ کشمیری لباس پھیرن پر پابندی اور زبان ادب کو ختم کرنے کے لیے مقبوضہ کشمیر میں ہندی کو سرکاری زبان قرار دیا گیا ہے۔ کشمیری زبان میں لکھے تمام بورڈ ہٹا کر ہندی میں آویزاں کر دئے گئے ہیں۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے کئی محاذوں پر جنگ کی ضرورت پہلے سے زیادہ ہو گئی ہے وہ میدان عمل سے نظریات کے تحفظ تک۔آزاد کشمیر کے حکمران کہتے ہیں کہ ہم بھارت کے ساتھ جنگ نہیں لڑ سکتے۔ بے شک محاذ جنگ پر نہ سہی نظریاتی جنگ تو لڑ سکتے ہیں۔کشمیری زبان و ادب کو تعلیم کا لازمی حصہ اور کشمیری کلچر کی معروف 7 جہتوں کو محفوظ بنا کر۔۔ لیکن مظفر آباد کے فنکار نالاں ہیں کہ ہمیں کوئی گھاس ہی نہیں ڈالتا۔آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی نے گزشتہ ہفتہ مظفر آباد سے آئے ہوئے فنکاروں کو خوش آمدید کہا کشمیر کلچر شو کے لیے وہ تمام سہولتیں مہیا کی جو ان کی ضرورت تھیں، انہوں نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا بلکہ کراچی میں مقیم کشمیریوں کی کثیر تعداد نے اس شو میں شرکت کی۔ کراچی میں اس سطح کا یہ پہلا پروگرام تھا جس میں، کشمیری، پہاڑی اور گوجری زبان میں موسیقی کے علاوہ خاکے، اور مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر ایک مختصر اسٹیج شو بھی پیش کیا گیا۔ کشمیری زبان میں موسیقی جن کی سمجھ میں نہیں بھی آتی تھی وہ بھی جھوم اٹھے کہ اغیار کے قبضہ میں وطن عزیز کی سریلی آواز ان کے کانوں میں پڑھ رہی تھی۔ مظفرآباد سے آنے والے فنکاروں کے وفد میں دو خواتین بھی تھی جن کی بہترین پرفارمنس پر لوگوں نے داد دی۔۔ کووڈ ایس او پی کے پیش نظر آرٹس کونسل عام طور پر رات 11 بجے بند ہوتی ہے، رات ڈیڑھ بجے تک شو ختم ہونے کا انتظار کیا گیا لیکن کسی نے شو انتظامیہ کو وقت ختم ہونے کی یاد دہانی نہیں کرائی یہ کشمیریوں کے ساتھ اہلیان کراچی کا محبت کا اظہار تھا۔ شو کے آرگنائزر اور لوگ گلوکار سجاد علی کشمیری نے شہر بھر میں کشمیری تاجروں کے ساتھ رابطہ کیا اور ان کو حصہ داری کے لیے قائل کیا جس کی وجہ سے یہ شو کامیاب ہوا۔ بعد ازاں سجاد نے آرٹسٹوں کے وفد کے ہمراہ صدر آرٹس کونسل محمداحمد شاہ سے ان کے دفتر میں ملاقات کی اور کشمیر شو کے انعقاد پر تعاون اور سرپرستی کرنے پر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ کشمیری فنکاروں کی کراچی آرٹس کونسل میں جو پذیرائی تعاون اور سرپرستی کی گئی یہ مظفرآباد میں بھی نہیں کی جاتی۔ آزاد کشمیر کے فن کاروں کا کہنا تھا کہ مظفر آباد ایک بڑا شہر اور ریاستی دارالحکومت ہے مگر وہاں ابھی تک آرٹس کونسل نہیں ہے۔ انہوں نے احمد شاہ سے درخواست کی چوں کہ آپ ملک بھر کے آرٹسٹوں کے قائد اور فن و ثقافت کے بین الاقوامی سفیر ہیں لہذا اپنے اثرورسوخ سے آزاد کشمیر حکومت کو قائل کریں کہ وہ فن و ثقافت کی ترقی ترویج اور فن کاروں کی فلاح و بہبود کے لیے فراخ دلی کا مظاہرہ کرے۔ محمد احمد شاہ نے وفد کو یقین دلایا کہ وہ جلد مظفرآباد سمیت گلگت اور چاروں صوبائی دارالحکومتوں کا دورہ کرکے متعلقہ حکومتوں سے اس حوالے سے بات کریں گے کہ کراچی ماڈل طرز پر ہر صوبائی دارالحکومت میں آرٹس کونسل قائم کی جائے۔ سرکاری سطح پر قائم آرٹس کونسل کا ماڈل ناکام ہو چکا لہذا پرائیویٹ کلب کے طور پر ہی یہ شعبہ ترقی کر سکتا ہے حکومت صرف اس کی سرپرستی کرے ادارے ممبران خود چلائیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر کشمیری آرٹسٹ دلچسپی لیں تو کراچی آرٹس کونسل میں کشمیر فیسٹیول منعقد کیا جائے گا جس میں کشمیر کی تقافت، ادب شاعری اور موسیقی کے پروگرام اور نمائش منعقد ہو گی۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا فیسٹیول ہو گا جس کا پیغام بین الاقوامی سطح پر جائے گا ممبر گورننگ باڈی بشیر سدوزئی کو کوآرڈینیٹر مقرر کیا جاتا ہے جو اس فسٹیول کے لیے رابطہ کاری کا کام انجام دے گا ۔ کشمیری فنکاروں کو کامیاب کلچر شو منعقد کرنے پر مبارک باد دی اور کہا کہ کراچی آرٹس کونسل پورے پاکستان کی ہے ہم نے ملک بھر کے تمام کلچر اور زبانوں کو جوڑ کر فیڈریشن کو مضبوط کرنے اور محرومیاں ختم کرنے کا کام کیا، اردو سمیت ملک کی تمام علاقائی زبانوں کی ترقی کے لیے کوشاں ہیں ۔ ابھی چند دن قبل شینا زبان پر ایک بڑی کانفرنس ہوئی جو گلگت بلتستان میں سب سے زیادہ بولی جاتی ہے۔ اسلام آباد میں مئی میں منعقد ہونے والی اردو کانفرنس میں کشمیری زبانوں پر بھی سیشن منعقد کیا جا رہا ہے ہم چارہے ہیں کہ دیگر صوبوں کی طرح کشمیری کلچر بھی آرٹس کونسل کے ساتھ جڑے۔ان کا کہنا تھا کہ کشمیری ادب زبان اور کلچر بہت مضبوط ہے اس پر مکمل فیسٹیول ہونا چاہیے۔ کشمیر کی زبانوں اور ثقافتوں سے پاکستان کے عوام کو روشناس کرانے کی ضرورت ہے۔ صدر آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کا یہ اعلان وقت کی اہم ضرورت ہے جس سے نہ صرف کشمیر کلچر اور زباں اجاگر ہو گی بلکہ تحریک آزادی کشمیر پر بھی مثبت اثرات اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج سے برسرپیکار گوریلا جنگ جووں کو بھی بہتر پیغام جائے گا۔۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں نہ صرف ان مجاہدین کے خاتمہ کی کوشش کر رہا ہے بلکہ کشمیری زبان اور ثقافت کے خاتمے کے اقدامات شروع کر دئے ہیں۔ کسی قوم کی شناخت ہی اس کی زبان و ادب اور کلچر ہے جس میں لباس کھانے اور رہن سہن کے طور طریقے ہیں وہی ختم ہو جائے تو قوم ختم ہو کر دوسری کسی قوم میں ضم ہو جاتی ہے۔ بھارتی یہی چاتا ہے کہ کشمیر کی شناخت ختم کرے اسے بھارت میں ضم کر دیا جائے۔ لیکن ہمیں اس کی ان خواہشات کے سامنے بند باندھنا ہے۔ ادب اور کلچر کے ذریعے کشمیر اور کشمیریوں کی شناخت کو زندہ رکھنا ہے۔آرٹس کونسل کراچی میں مجوزہ دو یا تین روزہ کشمیر فیسٹیول اس کی بہتر شروعات ہو سکتی ہیں۔ ستمبر اکتوبر میں اس فیسٹیول کا انعقاد مناسب ہو گا، جس کا افتتاح وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار عبدالقیوم خان نیازی یا وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کریں اور اختتامی اجلاس میں صدر ریاست یا وفاقی وزیر امور کشمیر کی شرکت ہو۔ آرٹس کونسل کے حاطے میں کشمیری کھانوں، مصنوعات اور لباس کے اسٹال لگے ہوں۔ کشمیر کا ادب اور فنون لطیفہ،۔کشمیر میں صوفیائ کرام کا کردار۔۔کشمیر کی دستکاری کا معشیت میں کردار۔ کشمیر کی تاریخ اور معاشی استحکام۔۔ کشمیر کی زبانیں اور ثقافت۔ کشمیر کے خطے اور اس کا فنون لطیفہ۔ کشمیر کا مذاحمتی ادب اور اس کی تاریخ۔۔کشمیر پر حملہ آوروں کے زبان و ثقافت پر اثرات۔۔ ایک روز شام کو مقبوضہ کشمیر کے حالات پر ڈیڑھ گھنٹے کی طویل فلم اور دوسرے روز کشمیر کی موسیقی کا پروگرام منعقد ہو جس میں آزاد کشمیر کے معروف گلوکاروں کی شرکت یقینی ہو۔ کراچی مظفر آباد سے خاصا دور ہے حکومت آزاد کشمیر کے تعاون کے بغیر اس کا انعقاد ہے اثر ہو گا حکومت آزاد کشمیر اس میں دلچسپی رکھتی ہے۔۔بصورت دیگر کوئی این جی او تو یہ کام کر ہی لے گی۔لیکن کشمیر کلچر اکیڈمی، محکمہ ثقافت آزاد کشمیر اور جموں و کشمیر لبریشن سیل کس کام کے۔
٭٭٭٭٭٭